پچھلی نشست میں میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ ، بہاولپور اور ملتان کا تذکرہ کیا تھا۔ بات ان تینوں شہروں کی بدلتی ہئیت کی چھیڑی تھی۔ ان تین چار عشروں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بدقسمتی سے بہت کچھ اچھا، خوبصورت، پرلطف حصہ چلا گیا، اس کی جگہ زیادہ بھدے،کم صورت، کرخت ، کھردرے حصے نے لے لی۔ سب سے اہم اور نمایاں کمی شہر کے اندر موجود وہ ٹھیرائو، سکون اور کم آمیز ی کا تحلیل ہوجانا ہے۔ بہاولپور شہر جب بھی جاتے ، یہی محسوس ہوتا کہ جدیدسہولتوں سے آراستہ کسی پرسکون کلاسیکل سے شہر میں آئے ہیں۔ جہاں بڑا ٹیچنگ ہسپتال، میڈیکل کالج، یونیورسٹی، ہائی کورٹ، چڑیا گھر، کشادہ سڑکیں اور ضرورت کی تمام اشیا سے لبریز بازار موجود ہیں۔ اس کے باوجود بڑے شہروں والی گہماگہمی، شورشرابا، اونچی آوازیں، ٹریفک جام وغیرہ موجود نہیں۔ آج بہاولپور یکسر بدل چکا ہے۔صرف چند سال پہلے تک وہاں چوراہوں پر ٹریفک سگنل تک نہیں تھے۔ضرورت ہی نہیں تھی۔ آج دن کے مختلف اوقات میں ٹریفک جام ہمیں ملتا ہے۔ بھانت بھانت کے برانڈز، امتیاز جیسے سپر سٹور اورنجانے کیا کیا وہاں وارد ہوچکا ہے۔بہاولپور دراصل ایک کمرشل کنزیومر سٹی بن چکا ہے، کسی بھی دوسرے کنزیومر سٹی کی طرح بھدا،کم رو،بے ہنگم اور تناسب سے عاری۔ کم وبیش یہی صورتحال ملتان کی ہے۔ ملتانی وزیراعظم نے شہر میں بے شمار فلائی اوور بنا ڈالے، میٹرو ٹرین ہے، اس کے باوجود ملتانی دوست فخریہ بتاتے ہیں کہ ملتان کی ٹریفک میں گاڑی چلانا کس قدر مشکل ہے اور جس نے یہاں چلا لی وہ دنیا بھر میں کہیں مار نہیں کھاتا۔ بندہ پوچھے یہ کون سا امتیازی معاملہ ہے؟اور بری ٹریفک کا بھی کوئی مقابلہ ہوتا ہے؟ دوسری بڑی کمی ادبی، علمی محفلوں کا اٹھ جانا ہے۔ سرائیکی وسیب کی ایک خصوصیت رہی ہے کہ بہت سے خوشحال باذوق افراد اپنے گھروں میں ادبی، علمی بیٹھک جمایا کرتے۔ یار لوگ ان کے ہاں جمع ہوتے اور چائے کی پیالی پر گھنٹوں گپ شپ لگتی،بہت کچھ نیا سننے کو ملتا۔ دوسرے شہروں سے اہل علم شہر میں آتے تو ان محفلوں میں شریک ہوتے اور اپنے علم سے دوسروں کو مستفید کرتے۔ بہاولپور میں ملک عبداللہ عرفان کی محفل مشہور تھی۔ وہی عبداللہ عرفان جنہوں نے ناتھ جی جیسی شاندار سرائیکی کتاب لکھی۔احمد پورشرقیہ میں بھی ایسی کئی چھوٹی بڑی محفلیں چلتی رہتیں۔ لوگ اہل علم ، اہل اللہ کے ہاں جمع ہوتے اور ادب کے ساتھ علم کے موتی سمیٹتے۔ احمد پور میں مولانا عبداللہ مرحوم کی محفل سے بہت سوں نے فیض پایا۔اب یہ سب پرانا قصہ لگتا ہے۔ مجھے ملتان کااس حوالے سے زیادہ اندازہ نہیں مگر شنید یہی ہے کہ یہاں بھی پرانے مے خوار اپنی محفلیں بڑھا گئے۔ میرے بچپن اور لڑکپن کا ناسٹلجیاتانگے اور سائیکل رکشہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یاد ہے کہ بچپن میں کس طرح والد کے ساتھ تانگہ میں سفر ہوتا۔تب کے کوچوان بھی ایک الگ کیٹیگری میں آتے تھے۔ باذوق، سمجھدار، فوک وزڈم سے لیس۔ ہر بندے کے مزاج، طبیعت کے مطابق گفتگو کرنا۔تانگے پر بیٹھے گھوڑے کے ساتھ یوں گپ شپ کرتے جیسے وہ اچھی طرح ہر لفظ سمجھتا ہو۔ ذرا مستی میں آ کر چابک کو پہیے کی تاروں سے یوں ٹکرانا کہ ساز سا بج اٹھے ،خواجہ صاحب کی کافیوں، دیگر مقبول سرائیکی ڈوہڑے کے ٹکڑے سنانے والے۔ سائیکل رکشہ والے گو زیادہ بات نہ کرتے مگر ان کے اندر بھی دھیما پن، سکون اور ٹھیرائو ہوتا۔آج کے چنگ چی رکشوں یا بھیانک آوازوں والے موٹر رکشوں میں وہ بات کہاں۔ سب کچھ ہی بدل گیا ہے، جیسے کسی نے کتاب کا ایک جگمگاتا ہوا دلکش صفحہ پلٹ ڈالا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ احمد پورشرقیہ کے مشہور گورنمنٹ ہائی سکو ل کے گرائونڈز میں مسلسل کھیل ہوتے۔ ایک گراونڈ میں فٹ بال کھیلی جاتی، نیو افغان ، السلطان کلب کے میچز ہوتے، دوسرے میں ہاکی کھیلی جاتی، جبکہ سٹیڈیم میں کرکٹ میچز ہوتے۔ بہاولپور میں بھی کرکٹ اور فٹ بال کے معرکے کے ٹورنامنٹ ہوتے۔ وہاں کا ایک فٹ بال کلب بہت مشہور تھا، کہا جاتا تھا کہ اس کے مقابلہ صرف لاہور کا ایک کلب کر سکتا ہے ، جس کے مہتمم شائد حافظ سلمان بٹ تھے۔ کرکٹ کے ٹیپ ٹینس بال ٹورنامنٹ دھوم دھام سے ہوتے۔ سکولوں کی کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال ٹیمیں ہوتیں اور کالجوں کی بھی۔ آج بیشتر سکولوں اور کالجز کے پاس گرائونڈ ہی نہیں۔ لڑکے کہاں کھیلیں ؟لے دے کر شہروں میں دو چار سنوکر کلب ہیں، یا پھر ہر کوئی اپنے موبائل پر ویڈیو گیمز میں جتا رہتا ہے۔ سب سے بدصورت چیز یہ لگی کہ اب ہر جگہ لوگ صرف کھابے کے لئے ہی اکھٹے ہوپاتے ہیں۔ پہلے یہ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں ہوتا تھا کہ دوست یار کھابے کے بغیر جمع نہیں ہوتے۔ ہمارے شہروں میں لڑکے تواتر سے جمع ہوتے اور گھنٹوں گپ شپ لگاتے رہتے۔ زیادہ سے زیادہ کہیں پر چائے پی لی ، ورنہ اس کے بغیر ہی پانی کے جگ پر پوری محفل جما لی جاتی۔ آج کھابا سرائیکی وسیب کے ان علاقوں میں بھی بنیادی جز ہے۔ کہیں پر کڑاہی گوشت، سجی ، دال ماش کڑھائی وغیرہ ہو ، تب ہی دوست اکھٹے ہوں گے۔ اگر کھابا نہیں تو گپ شپ نہیں، گپ ہانکنے کے لئے اب دوستوں کی محفل نہیں بلکہ واٹس ایپ گروپوں اور فیس بک کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایک زمانے میں اصطلاح پڑھی کہ ترقی ناپنے کے مروجہ فارمولوں کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ کون کتنا زیادہ خوش ہے۔ پھر پتہ چلا کہ بھوٹان کے بادشاہ نے باقاعدہ یہ تھیسس پیش کیا ہے اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ بھوٹانی گو ترقی یافتہ نہیں ،مگر وہ دنیا کی خوش وخرم اور مطمئن ترین قوموںمیں سے ایک ہیں۔بعد میں گراس نیشنل ہیپی نیس انڈیکس (GNH)کے نام سے ایک باقاعدہ اصطلاح بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بھوٹان اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ ان دنوں میں یہ سوچتا تھا کہ اس پیمانے پر ناپا جائے تو شائد سرائیکی وسیب کے لوگ بہت اچھی پوزیشن لیں، خاص کر بہاولپور، ملتان جیسے ڈویڑن۔ترقی میں لاہور، کراچی، اسلام آباد سے کم مگر زیادہ خوش وخرم، مطمئن اور آسودہ۔ آج مجھے اس میں شک ہے۔ لگتا ہے کہ کمرشلائزیشن اور کنزیومر ازم کا دیو اپنے بھیانک جبڑوںمیں سرائیکی وسیب کے ان علاقوں کو بھی دبوچ چکا ہے۔ ماضی اب قصہ پارینہ بن چکا۔ شہر بد ل گئے، تہذیب بدل گئی۔ باقی بچے ہم آپ ، جو اس بدلتی تہذیب، بدلے شہروں کے نوحہ گر ہیں۔ (پانچویں ریشم دلان ملتان کانفرنس کے لئے خصوصی طور پر لکھا گیا) (ختم شد)