جو بھی کرتا ہے محبت وہ برا کرتا ہے ایک بندے پہ وہ کتنوں کو خفا کرتا ہے مسئلہ میرا ہے دنیا کو پریشانی کیوں جو ہوا ہے وہ محبت میں ہوا کرتا ہے ن لیگ والے بے چارے اب کسی سے آنکھ نہیں ملاتے۔انہیں کون بتائے کہ جناب یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے۔آپ سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا۔جو شکایت کرتے ہ،ہیں وہ معصوم ہیں۔یوں برانگیختہ ہونے کی ضرورت تو نہیں۔جس کو تکلیف پہنچتی ہے گلہ کرتا ہے۔پیار بھی جنگ ہے، ہارنے والا تو تاوان ادا کرتا ہے تو جناب تاوان تو ہم نے اور آپ نے ادا کرنا ہے کیسے بھولے بادشاہ ہیں وہ لوگ جو کسی کے آنے کی اور کسی کے جانے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ حملہ آور تو یونہی بدنام ہوئے انہوں نے تو شاید اتنی لوٹ مار نہ مچائی ہو بہرحال آئی ایم ایف ایسٹ انڈیا کمپنی سے کچھ آگے جا رہی ہے ۔ میرے منہ میں خاک مگر دل بیٹھا جا رہا ہے جذبے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ پٹرول کا تیسرا حملہ ہو چکا۔24روپے پٹرول بڑھ گیا اور ڈیزل اکٹھا ہی 60روپے کہ باربرداری یک دم سب کچھ مہنگا کر دے گی۔ جی بڑے بڑے دماغ اوپر بیٹھے ہوئے ہیں یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوا۔قوم کو بھٹی میں جھونک دو ہائے ہائے یہ مہنگائی ختم کرنے آئے تھے۔ اب ایک اے سی میں بیٹھے غم غلط کر رہے ہیں۔باہر بیٹھا نڈھال ہے یہ کون لوگ ہیں؟ سب جاننے والوں کا قصور عوام سے گالیاں کھانے والے اب باہر بیٹھے ہنس رہے ہیں سب عوام پر ہنستے ہیں انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں اشرافیہ کا وہی چلن ان پر آئی ایم ایف کٹ نہیں لگاتا بلکہ ان کے ذریعہ تو وہ مسلمانوں کو غلام بناتا ہے معاشی قتل عام کرتا ہے۔ابھی فواد چوہدری کا ٹویٹ دیکھ رہا تھا کہ پوسٹ بجٹ کانفرنس میں وزیر خزانہ کے ساتھ بیٹھی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب مسلسل ویڈیو گیمز کھیلتی رہیں ان کا کہنا ہے کہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ یہ لوگ کتنے سنجیدہ ہیں۔ فواد چوہدری نے خوب اندازہ لگایا کہ مریم اورنگزیب ویڈیو پر گیمز ہی کھیل رہی تھیں۔ویسے تو یہ سب ایک کھیل ہی کھیل رہے ہیں وہی میوزیکل چیئر اب ایک کرنسی کا اضافہ ہو گیا ہے اور وہ کھلاڑی وقتی طور پر نکل گیا ہے۔جب اس کی ضرورت پڑے گی آ جائے گا ۔ہمیں تو فواد چوہدری بھی ایسے یہ سنجیدہ نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں سائنس کی دنیا میں کئی نایاب تجربات کئے اور کئی چاند چڑھائے۔ذکر کرنے بیٹھوں تو کالم تمام ہو جائے زرتاج گل کے لطیفوں پر ہی کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔سیاست میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کھیل پکاتا کوئی اور ہے ،یہی پریشانی اب مریم نواز کی ہے کہ حالات کچھ اور ہو گئے ہو سکتا ہے کہ کل کلاں وہ شکر کرے کہ اچھا ہے کہ کچھ نہیں ملا۔کیس معاف کروانے اتنے بھی آسان نہیں۔یہ تو نکالنے والوں نے ووٹ کو عزت دو والے بیانیے کی ہوا نکالی ہے: ہوئے مر کے ہم جو رسوا ‘ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا کتنی خوشی اور اعتماد سے گرانی کا اعلان کرتے ہیں ۔ مجال ہے کہ ان کی پیشانی پر ذرا سا بھی عرق ندامت ہو ۔پنجاب کا ٹیکس فری بجٹ آ گیا ہے۔تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ اور پنشن میں 5فیصد اضافہ جبکہ مہنگائی 50فیصد کے قریب بڑھ جائے گی کہ پٹرول تقریباً ڈبل مہنگا ہو گیا ہے۔ وہی بقول خالد علیم کہ اب سفید پوش اپنا بھرم بھی قائم نہیں رکھ سکے گا۔چولہا جلانا مشکل ہو گیا۔ پڑھنے لکھنے اور تفکر کرنے والے تو زمین برد کر دیے گئے۔بھلا یہ کوئی معاشرہ ہے؟ جھوٹ ‘ جھوٹ اور صرف جھوٹ۔ بات تلخ ہے مگر ہے سچ کہ سب لوگ حفظ و امان میں ہیں، سب کو پناہ گاہیں الاٹ ہیں ،کسی کو پنجاب لوٹا دیا گیا ہے کوئی سندھ میں آسودہ حال ہے اور کوئی پختون خواہ میں ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔جو بھی کچھ بنتا ہے اور حکومت میں آتا ہے تو وہ اسے صوبہ نہیں بننے دیتا یہ لوگ تو ہوٹلوں میں فیسٹ اور ڈنر کھاتے ہیں انہیں کیا پتہ کہ عوام کا کیا دکھ ہے۔ویسے پتہ ہی ہے تو ان کی صحت پر کیا اثر۔شیخ رشید کا کلپ تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے گھرسے تو کبھی کھایا ہی نہیں ، وہی کہ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے۔ہمیں مشورے دیے جاتے ہیں کہ چائے کا کپ کم کر دیں پچھلے بھی یہی کہتے تھے ۔چینی کم کر دیں روٹی آدھی کر دیں وغیرہ وغیرہ ۔ ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں ۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ ہر شے مہنگی ،ہر طرف اندھیرا۔کسی بادہ کش کا شعر ہے: اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں ویسے یہ ربورٹ ہیں۔ ان سے جو مرضی کہلوا لیں رکھوا لیں بس اقتدار چاہیے۔ یہ لت خان کو بھی لگ گئی ہے وہ بھی اب ماہیٔٔ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں ۔ مگر ابھی کچھ انتظار۔ابھی اپنی طبیعت کو بحال کریں اور اسی ڈگر پر لائیں کہ جس کا چلن ہے۔عوام تو اب سوئے آسمان دیکھتے ہیں گرمی بھی شدت کی ہے بادل بھی نہیں آ رہے: دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے