وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں براڈ شیٹ انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی گئی ہے۔ ایک رکنی براڈ شیٹ کمیشن صرف جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید پر مشتمل ہو گا جس کے وہ سربراہ بھی ہوں گے۔ یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ اب جبکہ وفاقی کابینہ نے فراخ دلی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے براڈ شیٹ معاملہ پر کمیٹی کی بجائے کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دیدی ہے تو صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ براڈشیٹ پر بیان بازیوں اور الزام تراشیوں کا طوفان بھی تھم جانا چاہیے۔ یقینا یہ ایک ایسا ہی معاملہ تھا جس کی بہرحال تحقیقات ہونی چاہیے تھیں۔فریقین خصوصاً اپوزیشن کو یہ امر بھی اب باور کر لینا چاہیے کہ یہ عدالت نہیں‘ تحقیقاتی کمیشن ہے جس کی فائنڈنگ اور رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے اور اس کے تناظر میں ہی کوئی اگلا قدم اٹھانا چاہیے۔ اپوزیشن کو اب اس امر پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ کمیشن حدیبیہ پیپر ملز اور سرے محل کی تحقیقات کیوں کر رہا ہے‘ ۔فریقین کے ایک دوسرے کے بارے میں فارن فنڈنگ کے حوالے سے جو شبہات ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے تمام امور کے بارے میں تحقیقات کر کے عوام کے سامنے لائی جائیں اور بعدازاں ایسے معاملات کو عدالتوں میں لے جا کر ان کے فیصلوں کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔