نومبر 2017 میں تین انڈونیشی نوجوانوں نے جکارتہ میں ایک مائیکرو ریٹیل ٹیکنالوجی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس نئے اسٹارٹ اپ کا نام ’ورونگ پنتار‘ تھا، جس کا انڈونیشی زبان میں مطلب اسمارٹ کھوکھا ہے۔ ورونگ پنتار کی ٹارگٹ مارکیٹ انڈونیشیابھر میں موجود 30 لاکھ سے زائد وہ کھوکھا اور ریڑھی والے تھے، جو اکیسویں صدی میں بھی پرانے طرز میں کاروباری لین دین اور نچلے درجے پر پرچون کا کام کررہے تھے۔ کمپنی کے بانیان کا وژن یہ تھا کہ انڈونیشی کھوکھے والوں کی ڈیجیٹل شمولیت اس درجے تک پہنچا دے، جہاں ان کی ساری سپلائی کی سرگرمیاں ڈیجیٹل ہوجائے۔ اس کمپنی کے گاہک کھوکھوں والوں کی تعداد 5 لاکھ کے لگ بھگ ہے، ایک ہزار کے اوپر ہول سیلر رجسٹر ہیں، دو سو کے زائد شہروں میں موجودگی ہے اور پچاس کے قریب ویئرہائوسز ہیں۔ بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاروں نے ورونگ پنتار میں کروڑوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کھوکھوں والوں کو ٹیکنالوجی کی اعانت کے کاروبارکے حصول میں انڈونیشیا کے بیشمار اسٹارٹ اپ اور کمپنیاں مصروف عمل ہیں۔ کھوکھوں کو ای کامرس کی سہولت کی فراہمی میں بوکالاپاک نامی انڈونیشی ٹیکنالوجی کمپنی کا بڑا شہرہ ہے، جو اس سیگمنٹ میں مارکیٹ لیڈر ہے۔ بوکالاپاک یونی کورن ہے یعنی ایسی ٹیکنالوجی کمپنی جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن ایک ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ انڈونیشی سرکار کی کھوکھوں اور ریڑھیوں پر قانونی نظرِکرم کی وجہ سے ہی ٹیکنالوجی کمپنیاں کروڑوں ڈالر ان کے کاروبار کے حصول کے لیے خرچ کررہی ہیں۔ ٹیکنا لوجی کمپنیوں کی کھوکھوں اور ریڑھیوں والوں کے ساتھ کاروباری اشتراک کی کئی مثالیں دونوں ترقی یافتہ اور ترقی پزیرممالک میں ملے گی۔ سال 2020 میں چین کی حکومت نے کرونا کی عوام کی قوت خرید پر منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے علی پے نامی مشہور ٹیکنالوجی کمپنی کے ذریعے ڈیجیٹل کوپن کا اجرا شروع کیا۔ صرف ایک مہینے میں ملک کے 170 شہروں میں ایک کروڑ سے زائد ریڑھی بانوں اور چھوٹے دکانداروں نے ڈیجیٹل کوپن پروگرام میں حصہ لینے کے لیے اپنے آپ کو رجسٹر کروالیا۔ حکومت کی اس سوچی سمجھی اسکیم کا مقصد ٹیکنالوجی اور نچلی سطح کی ریٹیل کے اشتراک کے ذریعے سرکاری معاشی سہولت کی پہنچ زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانا تھا۔ اب اس ساری مشق میں چینی حکومت کا مطمح نظر عوام کی بھلائی تھی نہ کہ ریڑھی بانوں اور کھوکھوں والوں کے کام کرنے کے سرکاری اجازت نامے تلاش کرنا تھا۔ ہمارا پڑوسی ہندوستان تو ریڑھی بانوں کی سہولت کاری میں قانونی اور معاشی دونوں محاذوں پر کافی آگے ہے۔ ہندوستانی سرکار نے ریڑھی بانوں کے مرکزی قانون کے تحت ریاستی اور مقامی سطح پر قواعد و ضوابط تشکیل دیے ہیں اور ملک کے شہری علاقوں میں ریڑھی بانوں کے سروے کروائے۔ ان سروے کے ذریعہ ملک میں ریڑھی بانوں کی کل تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ کے قریب ہے۔ اس اعدادوشمار کی بنیاد پر کرونا کے دوران ملک بھر کے ریڑھی بانوں کے لیے جہا ں بینکوں سے قرضے کی اسکیم کا اجرا کیا گیا، وہاں پر ریڑھی بانوں کی ڈیجیٹل شمولیت بڑھانے کے لیے ’میں بھی ڈیجیٹل‘ کے نام سے پروگرام شروع کیا گیا۔ جو ریڑھی بان قرضے کی اسکیم سے مستفید ہونا چاہتے تھے، تو ان کے لیے ’میں بھی ڈیجیٹل‘ پروگرام میں شمولیت لازمی تھی۔ اس قرضہ اسکیم کے تحت بینکوں نے اب تک 32 لاکھ سے زائد ریڑھی بانوں کو قرضے فراہم کیے ہیں۔ قرضے حاصل کرنے والے سارے ریڑھی بانوں نے حکومت کے زیر اہتمام تربیتی اداروں سے ڈیجیٹل ادائیگیوں اور وصولیوں پر تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ ریڑھی بانوں کو ای کامرس کے ایپس کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی بڑی فوڈ ڈلیوری کی ایپس کمپنیوں، جیسے کے سویگی اور زوماٹو، نے ہزاروں ریڑھی بانوں کو اپنے ڈلیوری سسٹم میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ریڑھی بانوں کو ای کامرس، سپلائی چین اور دیگر خدمات کی فروخت میں جتی ہوئی ہیں۔ ان ساری گذارشات سے یہ حقیقت تو واضح ہوتی ہے کہ پاکستان سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملکوں کی حکومتوں نے معاشی لحاظ سے پچھڑے ہوئے ریڑھی بانوں کو بھی ترقی کے ثمرات میں شامل کرنے کی کاوشیں کی ہیں۔ سرکاری سطح پر پاکستان میں ایسی کوششیں مفقود ہیں۔ ہم نے ان کالموں میں پہلے بھی حکمران اشرافیہ کے ریڑھی بانوں کی کسمپرسی اور استحصال سے عدم دلچسپی اور غیرہمدردانہ رویے کے بارے میں ذکر کیا تھا۔ اس معاملے میں کوئی بنیادی تبدیلی جہدِ مسلسل کی متقاضی ہے۔ مگر یہاںیہ پہلو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے پاکستان نیاسٹارٹ اپ اور کمپنیوں کے پاس دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح تمام تکنیکی مہارت اور صلاحیت موجود ہے کہ وہ مقامی ریڑھی بانوں کو وہ ساری خدمات مہیا کر سکتے ہیں، جن کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ان پاکستانی اسٹارٹ اپس نے، جو پرچون اور تھوک کے درمیان لین دین کی ایپس پر کام کررہے ہیں، بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے کروڑوں ڈالروں کی کاروباری فنڈنگ حاصل کی ہے۔ اگر انڈونیشیا، چین اور ہندوستان کی طرح پاکستانی حکومت بھی ریڑھی بانوں کے قانونی فریم ورک کو بہتر کرے، تو مقامی ٹیکنالوجی کمپنیاں ریڑھی بانوں کو ٹیکنالوجی پر مبنی خدمات فراہم کر کے ریڑھی معیشت میں کافی بڑھوتی کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں سیلاب سے بدترین تباہ کاریوں کے پس منظر میں ہمیں اس حقیقت کا شدت سے احساس ہونا چاہیے کہ جلد ہی سیلاب زدہ علاقوں سے آبادی کا ملک کے بڑے شہروں کی طرف روزگار کے لیے نقل مکانی کا رحجان نظر آئے گا۔ ایک اہم سوال یہ ابھرے گا کہ کیا ملکی وسائل اس قابل ہیں کہ آبادی کی اس بڑی تعداد کے روزگار کا بندوبست کرسکے۔ ظاہری طور پر اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ مگر بدترین حالات میں کچھ مثبت ہنگامی اقدامات کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہاں حکومت اگر چاہے تو ریڑھی بانوں کو وینڈنگ لائسنس مہیا کر کے ان کے کاروبار میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا سکتی ہے۔ اس سے نچلی سطح پر معاشی سرگرمیوں کو بغیر سرکاری سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور نقل مکانی کرنے والے روزگار کے متلاشیوں کو بھی کھپایا جاسکے گا۔