سندھ کابینہ میں بہت بڑی تبدیلی کی خبر اصل میں اتنی معمولی ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا بھی کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ حالانکہ حکومت سندھ میں چار نئے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ 13 وزراء کے محکمے جنبش قلم سے تبدیل کیے گئے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب سے سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب رحیم تحریک انصاف میں شامل ہوکر سرگرم ہوئے ہیں، تب سے سندھ حکومت کی نیند چھن گئی ہے۔ جب کہ ارباب رحیم نے اپنی زباں سے یہ بیان بھی دیا ہے کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ کیوں کہ تبدیلی کے اور بھی طریقے ہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کو خوف ہے کہ آصف زرداری کی گرتی اور سنبھلتی ہوئی،صحت پیپلز پارٹی کی تنظیمی طاقت کے مانند ہے۔سندھ کابینہ میں اہم فیصلے کرنے کا ایک سبب یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے پیروں تلے 13 برس کا راج اب کھسکتا محسوس ہو رہا ہے اور پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ اگر سندھ میں انتخابات سے قبل بننے والی نگران حکومت میں اس کے اپنے بندے نہ ہونگے،تو پھر اس بار اقتدار کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح سے پورے سندھ کو کابینہ میں شامل کرے اور جو افراد اقتدار سے محروم رہے ہیں، انہیں اقتدار کی انگلی چٹائی جائے۔ پیپلز پارٹی کے اندر اختلافات کی سرگوشیاں نئی نہیں ہیں،مگر اب وہ سرگوشیاں ذرا کھلے انداز سے اپنا اظہار کر رہی ہیں۔ اس لیے سندھ حکومت نے روٹھوں کو منانا اور کھا کر بھی شکر نہ ادا کرنے والوں کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کے اثرات سندھ کی سیاسی صورتحال پر کس طرح اپنا اثر ڈالیں گے؟ اس سوال پر سندھ میں سیاسی اور صحافتی حلقے سوچ رہے ہیں۔کیا سندھ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے؟ کیا ابھی سے آنے والے انتخابات کی تیاری کر رہی ہے؟ کیا وہ سندھ کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لاکر یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ جو عوام کے مسائل گذشتہ 13 برسوں کے دوراں حل نہیں ہوئے اب ان کے حل ہونے کی امید پیدا کی جائے؟ سندھ حکومت میں جن وزیروں اور مشیروں کو شامل کیا گیا ہے،ان کے بارے میں کچھ لکھنے سے قبل بہت ضروری ہے کہ ان افراد کے بارے میں لکھا جائے ،جو بہت پیپلز پارٹی کی قیادت کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں مگر ان کو فارغ کرنا ضروری سمجھا گیا مگر کیوں؟ فارغ ہونے والوں میں سب سے اہم نام پیپلز پارٹی کے اس سینئر رہنما نثار کھڑو کا ہے جو بینظیر بھٹو کے بہت قریبی سمجھے جاتے رہے ہیں اور سندھ کی پارٹی پر ان کی پکڑ ہمیشہ مضبوط رہی ہے۔ نثار کھوڑو کا تعلق لاڑکانہ سے ہے مگر یہ اطلاعات پارٹی قیادت کو موصول ہوئی ہیں کہ اپنے ہم کلاس اور ہم گلاس دوستوں میں بیٹھ کر نثار کھوڑو پارٹی قیادت پر سخت تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے جس پارٹی کو خون اور پسینے سے سینچا اس کو زرداری خاندان تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نثار کھوڑو کے سلسلے میں یہ بھی شکایات رہی ہیں کہ وہ اپنی وزارت سے پارٹی کو ’’فنڈ‘‘ دینے سے صاف انکار کرتے رہے ہیں۔ جب کہ ان پر یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے لاڑکانہ میں پارٹی کے دروازے دوسروں کے لیے بند کر رکھے ہیں۔ نثار کھوڑو کو کابینہ سے فارغ کرنا بہت بڑا قدم ہے اور اس کو متوازن بنانے کے لیے پارٹی قیادت کو اپنے پسندیدہ شخص سہیل انور سیال کی وزارت کی قربانی بھی دینا پڑی ہے۔ سہیل انور سیال کے پاس آب پاشی کا محکمہ تھا اور ان کے حوالے سے بہت ساری شکایات بھی تھیں۔ ان کے لیے بدین میں بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں کو سوالات کے جوابات دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اس نے مسائل حل نہیں کیے تو وزارت سے فارغ کیے جائیں گے۔ ان کے بارے میں سندھ حکومت کے حلقوں میں یہ باتیں عام ہیں کہ سہیل انور سیال وزیر نہ ہوتے ہوئے بھی وزیروں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جس طرح فریال تالپور سندھ کابینہ کی وزیر نہیں ہے مگر آصف زرداری کے بعد ان کا حکم سارے وزیروں کے لیے حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ سہیل انور سیال فریال تالپور اور آصف زرداری کے بہت قریبی بندے ہیں۔ وہ اگر وزارت سے محروم ہوئے ہیں تو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ ’’پارٹی کسی کے لیے بھی کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے‘‘ سندھ کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیاں کافی دلچسپ ہیں۔ اس میں نثار کھوڑو اور سہیل انور سیال کو فارغ کرنے کے علاوہ سعید غنی سے تعلیم کا محکمہ لیکر انہیں اطلاعات کا قلمدان دینے کا فیصلہ صاف طور پر اس لیے کیا گیا ، کہ ناصر شاہ اور سعید غنی میڈیا پر نہ صرف پارٹی کابھرپور دفاع کرتے ہیں بلکہ وہ مخالفین پر سختی سے تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ انہیں انفارمیشن کا شعبہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب سعید غنی میڈیا پر پہلے سے زیادہ کھل کر بولیں گے اور وزیر ہونے کے حوالے سے میڈیا کو بھی ان کا خیال رکھنا ہوگا۔ ویسے بھی کراچی میں پرورش پانے والے اور نیچے سے اوپر آنے والے سعید غنی کے میڈیا سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ نہ صرف سندھی بلکہ پاکستان کی قومی میڈیا کو خوشی سے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب کہ سندھ کے مشہور کلچر منسٹر سردار شاہ کو وزارت تعلیم دینے کا سبب صاف طور پر یہ نظر آ رہا ہے کہ ارباب رحیم کے سامنے ایک طاقتور شخص پیدا کیا جائے۔ کیوں کہ سردار شاہ کا تعلق بھی اس تھر سے ہے جس سے ارباب رحیم کا تعلق رہا ہے اور سندھ حکومت سے زیادہ اس بات سے کون آگاہ ہے کہ انتخابات میں اساتذہ کا اہم کردار ہوا کرتا ہے۔ سردار شاہ کے لیے یہ بھی مشہور ہے کہ انہیں پارٹی قیادت کو ’’خوش‘‘ رکھنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ تعلیم کا محکمہ پہلے بھی کچھ عرصہ سردار شاہ کے پاس رہا مگر انہوں نے اس شعبے میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھائی ۔ اس لیے یہ محکمہ سردار شاہ سے لیکرسعید غنی کے حوالے کیا گیا اور اب جب سعید غنی کو وزیر اطلاعات بنایا گیا ہے تو پھر ارباب رحیم کے مقابلے میں سردار شاہ کو زیادہ طاقت دینے کے لیے پیپلز پارٹی نے وزیر ثقافت کے حوالے ایک اور محکمہ بھی کیا اور حالانکہ یہ بہت سنجیدہ اور حساس محکمہ ہے مگر پیپلز پارٹی نے تاریخ میں کبھی بھی اس محکمے سے انصاف نہیں کیا۔ خورشید شاہ کو وفاقی وزیر تعلیم بنانے سے لیکر پیر مظہر الحق کو سندھ کا وزیر تعلیم بنانے تک پیپلز پارٹی نے تعلیم کے ساتھ برائے نام بھی انصاف نہیں کیا۔ اس بار پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں جو بڑا فیصلہ کیا ہے وہ فیصلہ کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیوں سے بھی بڑا ہے۔ وہ فیصلہ ہے مرتضی وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنانے کا فیصلہ۔ مرتضی وہاب کا شروع سے شوق تھا کہ وہ کراچی کا میئر بنے۔ وہ متحدہ کے ہوتے ہوئے تو انتخابات کے ذریعے کراچی کا میئر نہیں بن سکتا، مگر بلدیاتی نظام کی مدت پوری ہونے کی صورت میں انہیں جب اس سیٹ پر بٹھایا گیا ہے تو یہ سیٹ اردو بولنے والے پیپلز پارٹی کے نوجوان بیرسٹرکے لیے بہت بڑا چیلینج ہے۔ کیا وہ کراچی سے انصاف کر پائیں گے؟ کیا سندھ حکومت کی طرف سے کابینہ اور کراچی میں لائی گئی تبدیلی پر وہ نتائج لانے میں کامیاب ہوپائیں گی، جو سوچ کر یہ اقدام اٹھائے گئے ہیں یا مذکورہ تبدیلی بھی برائے نام ثابت ہوگی؟