وبا ایک ہے جرمنی اور امریکہ ایک نہیں ہے روزگار اور بیروزگاری کو لے کر دونوں کی پالیسی الگ الگ ہے۔ جرمنی نے سارے آجرین، کارپوریٹ دفاتر، کمپنیوں اور دکانات کے مالکین سے کہا کہ ان کے پے رول میں جتنے بھی لوگ ہیں ان سے صرف ایک فارم پْر کروالیں کوئی سرٹیفکیٹ نہیں کوئی طویل عمل نہیں۔ تمام کو جو تنخواہیں مل رہی تھیں اس کا 60 سے 87 فیصد تک ان کے اکاونٹ میں جانے لگا۔ بے شک تنخواہ صدفیصد نہیں ملی لیکن نوکری جانے سے تو اچھا تھا کہ 60 سے 87 فیصد پیسہ ملے۔ ایسا کرتے ہوئے جرمنی کی حکومت نے لوگوں کو بیروزگار ہونے سے بچالیا۔ ملازمتوں سے محرومی نہیں ہوئی۔ جرمنی میں ایک کروڈ لوگوں کو اس اسکیم کا فائدہ حاصل ہوا۔اس لئے وباء کے مہینہ میں یعنی مارچ اور اپریل کے دوران جرمنی میں بیروزگاری کی شرح صرف 5 فیصد سے بڑھ کر 5.8 فیصد ہوئی۔ امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 14.7 فیصد ہوگئی۔ جرمنی نے انتظار نہیں کیا کہ پہلے لوگوں کا تخلیہ کروایا جائے پھر ہم بیروزگاری بھتہ دیں گے۔ جرمنی کی پالیسی تھی کہ کسی کی نوکری ہی نہ جائے۔ ایک بار کمپنی نکال دیتی ہے تو واپس رکھنے میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جرمنی نے ایسا کرکے ورکروں کی تول مول طاقت کو بھی بچالیا جب معاشی صورتحال پٹری پر واپس ہوگی تو ان کی تنخواہیں واپس ملنے لگیں گی، اگر نوکری سے نکالدیئے جاتے تو کمپنیاں دوبارہ رکھتی ہیں یا پھر تنخواہ بہت کم کردیتی ہیں۔امریکہ نے طے کیا کہ جو بیروزگار ہوئے ہیں انہیں بھتہ ملے گا امریکہ میں 4 کروڑ لوگوں نے اس بھتہ کے لے درخواستیں دی ہیں اور انہیں یہ الاونس مل بھی رہا ہے۔ امریکہ میں بھی جرمنی کی پالیسی ہے لیکن آدھے دل سے نافذ ہے۔ امریکہ میں بیروزگار ہونے پر درخواست دینی پڑتی ہے۔ تب وہاں مرکز کی جانب سے بیروزگاوں کو وباء کا 600 ڈالرز مالیتی بھتہ دیا جاتا ہے۔ پروپبلک نے ایک خاتون ورکر کی مثال دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ جب اس نے درخواست دی تو اس کی درخواست مسترد ہوگئی۔ بتایا گیا کہ اس نے ایک طویل وقت تک کام نہیں کیا اس لئے اس کی مستحق نہیں ہے۔ بعد میں اسے بیروزگاری بھتہ یا الاونس ملا لیکن آدھے سے کم تھا۔ امریکہ نے الاونس تو دیا لیکن تنخواہ سے کم دیا۔ جرمنی نے مکمل تنخواہ نہیں دی لیکن 60 سے 87 فیصد ادا کیا۔ جرمنی اور امریکہ کے تقابل کا یہ مضمون میں نے پروپبلیشر میں پڑھا جسے Alee Mcgiles نے لکھا ہے۔ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں دس کروڑ لوگ بیروزگار ہوگئے، ان میں سے قریب 2 کروڑ باقاعدہ تنخواہ پر کام کرنے والے تھے۔ اگر آپ ایک آدمی کے پیچھے چار آدمی بھی جوڑ لیں تو اس حساب سے 50 کروڑ کی آبادی کے پاس کوئی آمدنی ہی نہیں ہے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں بیروزگاری موضوع بحث نہیں ہے۔ میڈیا اس بارے میں بحث نہیں کررہا ہے۔ یہ مان سکتا ہوں کیا لوگ اس بارے میں تبادلہ خیال کررہے ہیں؟ اس لئے ہندوستان میں سیاست کرنا سب سے آسان ہے۔ کیونکہ یہی ایک ملک ہے جہاں روزگار ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگ بات نہیں کررہے ہیں، ہندوستان کا نوجوان صرف اپنی بھرتی امتحان کی بات کرتا ہے۔ بیروزگاری اور اس سے متعلق سب کے فائدہ کی اسکیم پر بات نہیں کرتا۔ دو سال تک روزگار سے متعلق مسئلہ پر گہرائی سے ڈوبے رہنے کے بعد یہ علم حاصل ہوا۔ روزگار کے سوال کو ہندوستان کے بیروزگار نوجوانوں نے ہی ختم کردیا۔ اس لئے روزگار ایک سیاسی مسئلہ بن ہی نہیں سکتا۔ بنے گا بھی تو بہت آسانی سے تحفظات اور آبادی کا حوالہ دے کر انہیں تقسیم کردیا جائے گا۔ ایک ضد کی طرح وہ آبادی اور تحفظات کو دشمن سمجھ بیٹھا ہے۔ وہ اپنے اندر ان الجھنوں سے پْر باتوں کو لیکر اپنا موقف طے کرتا رہتا ہے اور روزگاری کی سیاست اور پالیسی سازی کے ممکنات کو اپنے ہی پاوں تلے روند ڈالتا ہے۔ آپ اس نوجوان معاشرہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اسے جرمنی اور امریکہ کی لاکھ مثالیں دیجئے وہ لوٹ کر اسی کنویں میں تیرنے لگے گا۔ نوجوان قبول نہیں کرے گا لیکن اس کی سوچ کی بنیاد میں سمنٹ کم ریت زیادہ ہے۔ یہ ریت الجھن سے پْر باتوں کی ہے۔ سیاسی لیڈر ریت بھر دیتا ہے۔ نوجوان سسٹم (نظام) اورپالیسی کو بیروزگاری کی وجہ نہیں مانتا ہے باقی سب کو مانتا ہے۔اس لئے بیروزگار نوجوان صرف بیروزگار نوجوان ہی نہیں ہے ان میں ذات پات اور مذہب کی سیاست کو لیکر ایک گہری خط غلطی بنی ہوئی ہے اس کی وجہ آپ اس نوجوان سے کسی نئے کی امید ہی نہیں کرسکتے۔ ہر بحث آپ کو اسی خطِ غلطی میں لے جائے گی اسی لائن پر دم توڑ دے گی۔ بیروزگاری کو لیکر ہمارا نوجوان اتنا سنجیدہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر شائع مضامین کو بھی سنجیدگی سے نہیں پڑتا ہے۔ اسے صرف اپنی کہنے کی جلدی ہوتی ہے۔ میرا ہو جائے میں سمجھتا ہوں لیکن اس سے بھی تو حل نہیں نکل رہا ہے۔ نوجوان کسی سے امید رکھے گا لیکن روزگار کو لے کر سیاسی سمجھ کے روزگار کے سنجیدہ عمل سے نہیں گذرے گا۔ وہ واٹس اپ یونیورسٹی اور گودی میڈیا کا صارف ہو چکا ہے۔ اسے کھاد پانی کے نام پر ٹی وی کے مباحث اور ٹک ٹاک کا بھونڈا پن آرہا ہے۔ اسے یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اس کا مسئلہ صرف اس کی بھرتی امتحان کا نتیجہ آنے سے ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ اسے روزگار کو سیاست کے مرکز میں لانے کے لئے اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے۔ پالیسیوں کو لے کر پڑھنا ہوگا ان کے بارے میں فہم و سمجھ پیدا کرنی ہوگی۔ ان کے تعلق سے بحث کرنی ہوگی تب جاکر بیروزگاری ایک سیاسی مسئلہ بنے گا۔ ایک دم سے آگ بگولہ ہوکر سڑک پر آنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا ہے۔ تشدد اور ناراضگی حل نہیں ہے۔ آئیڈیا یا فکر اس کا حل ہے سوال مباحث اور شرکت۔ (بشکریہ روزنامہ سیاست بھارت )