ہندوقوم پرست سیاست کے سبب بھارت میں اسلاموفوبیاتیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ مسلم بیزاری کے جارحانہ وارداتوں اورمسلمانوں اور اسلام کے تئیں نفرت کے باعث بے چارے بھارتی مسلمانوں کے گلے پہلے ہی رندھ چکے تھے لیکن اب ان کی نبض کی ضربیں اورشہہ رگ کی سانسیں بھی دھیمی پڑچکی ہیں ،انکے نصیب میں جو اندھیرے ہیں وہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہے ۔اس طرح وہ دائمی فسطائیت کے شکارہیں ۔ ہندو فسطائیت ہرسو چنگاڑ رہی ہے اوراپنی دہشت کامظاہرہ کررہی ہے ۔وہ مسلمانان بھارت پر دم بہ دم یلغارکرتی چلی جارہی ہے۔ معمولی سی چنگاری سلگ کران کاسب کچھ خاکستر کردیتی ہے ۔ دوسری طرف بھارت کی مسلم قیادت ابتذال کی شکارہے جس کے باعث بھارتی مسلمان دورفرنگی جیسے آثارالصنادیرمرتب کررہے ہیں۔لیکن دنیا بھارتی مسلمانوں کی گھمبیریت سے مسلسل اغماض برت رہی ہے ۔حالانکہ15 مارچ 2022 کواقوام متحدہ نے پوری دنیا میں’’کامبیٹ اسلاموفوبیا‘‘ اسلام کو ایک ڈرائونے مذہب کی شکل میں پیش کرنے کی مخالفت کے خصوصی دِن کے طور پرمتعین کردیا ہے ۔اسلاموفوبیا لفظ کے وسیع استعمال کی شروعات9/11/2001 کوامریکہ کے ٹیوین ٹاور پرہوئے حملے سے ہوئی۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی میڈیا نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ لفظ کو متعارف کیا۔ پورامغرب اسلامو فوبیاکاشکار ہوا۔مغربی ممالک کے میڈیا نے اس لفظ کواسلام اورمسلمانوں سے جوڑ کرایک طوفان بدتمیزی برپاکیا اور پوری مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایاجبکہ ایشیائی ممالک میں سے بھارت وہ واحد ملک ہے کہ جہاں اسلاموفوبیا کہیں زیادہ پایا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ پُرتشدد واقعات ہو رہے ہیں اور ایک شرمناک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے جا رہے ہیں۔ مودی سرکارہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کواس کام پر لگادیاکہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے تئیں نفرت کوتیزآنچ پررکھیںاوراس آگ کوبھڑکانے کے لئے پٹرول چھڑکائیں۔مودی سرکارمسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مسلمانوںکوگولی مارو‘‘ کا نعرہ دینے والے انوراگ ٹھاکر کو پروموشن دے کر کابینہ وزیر بنایا گیا۔ ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہراگل رہی ہے۔ہریدوار میں دھرم سنسد نے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیاہے۔جبکہ حال ہی میں دہلی میں منعقد ایک مہاپنچایت میں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے اور یتی نرسنہانند نے کہا کہ ہندئووں کو اسلحہ اٹھانا چاہیے۔ اس طرح پورے بھارت میں ہندوفسطائیت کا رتھ لگاتار چل رہا ہے بالخصوص ریاست کرناٹک میں نفرت بھری تقریر ہو رہی ہے۔ ریاست کرناٹک اسمبلی نے ’’دھرم سواتنتر بل‘‘ (مذہبی آزادی بل) پاس کیا ہے جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا ہے۔ جبکہ ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھی کرناٹک کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ مسلمان تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیلیں ہو رہی ہیں، عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی مخالفت ہو رہی ہے اور مسجدوں سے اذان بلندہونے پر لائوڈاسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ریاست مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے نے اسے ایشو بنا لیا ہے۔ تریپورہ میں ایک بی جے پی لیڈر نے سرکاری گرانٹ سے چل رہے مدرسوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ویلنیس کمپنی ہمالیہ پر اس لیے نشانہ سادھا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے سائن بورڈوں پر حلال سرٹیفکیٹ ظاہر کرتا ہے۔ سا کمپنی کا مالک ایک مسلمان ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ جو شخص ہمالیہ کا پروڈکٹ خریدے گا وہ ’’معاشی جہاد‘‘ کو فروغ دے گا۔ مودی سرکارکی ایمااوراس کی مکمل آشیربادکے ساتھ بھارت میں مسلمانوں کے لئے جہاد کی کئی قسم کی اصطلاحیں گڑی گئیں جن میں کورونا جہاد، زمین جہاد، یو پی ایس سی جہاد وغیرہ اوراب معاشی جہاد کی اصطلاح تازہ انٹری ہے۔ کمپنی نے یہ واضح کیا ہے کہ اس کی کسی بھی مصنوعات میں گوشت نہیں ہوتا۔ حلال سرٹیفکیشن دوائیوں کا ایکسپورٹ کرنے کے لیے ضروری ہے اور ریلائنس، ٹاٹا، ڈابر، امول، ہندوستان یونیلیور وغیرہ نے بھی یہ سرٹیفکیٹ لیا ہے۔کرناٹک میں اب مسلم ڈرائیوروں اور حلال سرٹیفکیشن والے آئس کریم کے بائیکاٹ کی بھی اپیل شروع ہوچکی ہے۔اسی کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں حجاب کے خلاف اسی طرح کی کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی ۔ بھارتھا رکشنا ویدیکے نامی ایک ہندوتواوادی تنظیم نے کی ہے جس نے ہندوؤں سے کہا ہے کہ وہ مسلمان ڈرائیوروں کے ساتھ تیرتھ استھاانوں یا مندروں میں نہ جائیں۔ اس نے مسلم ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی ملکیت والی گاڑیوں کو استعمال نہ کرنے کی اپیل بھی اپیل کی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی2021 سے لے کر دسمبر2021 تک لنچنگ سمیت تشدد کی 38 وارداتیں ہوئیں جبکہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر21 حملے ہوئے۔یہ اعدادوشمار گذشتہ برس کے آخری چھ ماہ کے دوران کے ہیں۔ یہ صرف سیتاپور کے ایک بجرنگ منی داس کی کہانی نہیں ہے۔ اترپردیش سے کرناٹک تک اور اتراکھنڈ سے تلنگانہ تک اس طرح کے بجرنگ منی داس موجود ہیں جو مذہبی جنون کی آگ میں تیل ڈالنا اپنی سب سے بڑی پنیہ کریا سمجھتے ہیں۔ پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ آخر ان بجرنگ منیوں اور نرسنہانندوں کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آجاتی ہے کہ علانیہ طور پر ملک کے دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کو مارنے ، اغوار وریپ کی دھمکی دینے لگتے ہیں؟ تو اس کا جواب مودی سرکار کی اس خاموش رضامندی میں چھپا ہوا ہے جوایسی حرکتیں کرنے کے لئے کہتا تو کچھ نہیں لیکن ایسی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف کرتا بھی کچھ نہیں۔ بی جے پی ا ورسنگھ پریوار کے لیڈران یعنی ہندو مذہبی جنون کی آگ بھڑکانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس آگ کی زد میں صرف حجاب یاحلال والے ہی آئیں گے، جئے شری رام والوں کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔ کیونکہ آگ چاروں جانب پھیلتی ہے پھر چاہئے وہ حقیقی آگ ہو نفرت کی، اور پھرجب آگ پھیلتی ہے تو وہ سب کچھ بھسم کردیتی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے اندر غصے اور ناراضگی کی جو کیفیت ہے وہ کہیں کوئی خطرناک رخ نہ لے لے۔ جب بھی کسی قوم پر اتنا ظلم ڈھایا جاتا ہے کہ وہ بے بس ہو جائے اور اسے دھکیل دھکیل کر دیوار سے لگا دیا جائے تو اس کے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ قوم پھر یہ نہیں دیکھتی کہ اس کی انتقامی کارروائیوں کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ وہ پھر اپنے دفاع میں جو مناسب سمجھتی ہے کرتی ہے۔