بھارت کے یوم جمہوریہ پر لال قلعہ پر لہراتا ترنگا اتار کر مشتعل کسانوں نے آزاد خالصتان کا پرچم لہرا دیا ہے۔ یہ واقعہ علامتی اور ظاہری اعتبار سے بھارت کی داخلی ٹوٹ پھوٹ کے سفر میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔بھارت اپنے قیام سے ہی ہندو توا کی بنیاد پر سامنے آیا۔ مسلم لیگ کی جانب سے دو قومی نظریے کی سیاسی مخالفت کرنے کی وجہ سے کانگرسی رہنمائوں نے ہندو توا کی جگہ سیکولر ازم کی بات کی۔ بہت پہلے سرسید احمد خان اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگرس اور ہندو انتہا پسندوں کی اصلیت بھانپ لی تھی۔ قائد اعظم کی اس بصیرت کا اعتراف آج مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں آباد تمام اقلیتیں کر رہی ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کی متعصبانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں آزادی و علیحدگی کی 67 تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے17 بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بھارت کے 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ناگالینڈ ، میزو رام ، منی پور اور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک زوروں پرہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی ویب سائٹ ،ہالٹ دی ہیٹ، نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں سال 2016 سے نفرت انگیزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور یہ ابتر صورت حال گزشتہ برس میں بدترین سطح تک پہنچ گئی ۔ مودی دور میں انتہا پسند ہندوئوں کی بر بریت کا صرف مسلمان ہی شکار نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔ اکتوبر2015ء کو بھارتی پنجاب کے علاقے فریدکوٹ میں ہندوؤں نے ایک گردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے سو سے زائد مسخ شدہ نسخے پھینک دئیے۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے پر پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے پانچ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے بعد ازاں پے در پے گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے واقعات بڑھے اور جالندھر، لدھیانہ ، امرتسر، کوٹ کپور میں چھ مختلف واقعات میں سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کر کے سکھ کمیونٹی کے جذبات مجروح کئے گئے۔ اسی طرح 2002ء میں ریاست گجرات میں پانچ ہزار مسلح ہندوؤں نے مسلما نوں کی آبادیوں پر حملے کر کے انہیں بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ ا س وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے مسلمانوں کے قتل عام پر کہا تھا کہ یہ سب گودھرا واقعہ کا فطری رد عمل ہے جسے بعد خود بھارت کے اپنے تحقیقاتی اداروں نے اپنی خفیہ ایجنسی کی کارروائی قرار دیا۔ بھارت میں مسیحی برادری بھی ایک بڑی اقلیت ہے جو ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا، جلانا ، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی اور انہیں زبردستی ہندو دھرم میں شامل کرنا جیسے واقعات عام ہیں اور خوف و ہراس پر مشتمل تحریری مواد مسیحی آبادیوں میں تقسیم کرکے انہیں ہراساں کیاجاتا ہے۔ہندوؤں کا خیال ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عیسائیوں کو ختم نہ کر دیا جائے۔ یوں بھارت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا خاتمہ بھی ’’سنگھ پریوار ‘‘کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ 2014ء کے اواخر میں دہلی کے بڑے گرجا گھر سینٹ سیستان چرچ میں آگ لگاکر اس کی بے حرمتی کی گئی اور 2015ء کے اوائل میں دلی کے ایک اور چرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی ‘ مجسموں کو توڑا گیا۔ چر چ میں لگے خفیہ کیمرے کی آنکھ نے حملہ آوروں کا ریکارڈ محفوظ کر لیا مگر ریاستی اداروں نے پھر بھی مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا۔ دلی میں مسیحی سکول ہولی چائلڈ پر بھی حملے ہوئے اور پولیس و دیگر ادارے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہے۔ اس سے قبل ریاست کیرالہ ، آندھرا پردیش کے واقعات میں درجنوں گرجا گھروں پر بم برسائے گئے اور مسیحی قبرستانوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ نے کشمیر کے مسئلہ کو مزید الجھاتے ہوئے اپنے ہی آئین کو توڑکر مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی قرار داد اور مقبوضہ کشمیر کی دو حصوں میں تقسیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد دو سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میںکرفیو نافذ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج 2016 کے بعد 17ہزارکشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت سمیت دنیا میں بسنے والے سکھوں نے بھی کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ کل کو ان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔ نتیجتاً کشمیر ایشو کے ساتھ ساتھ بھارت میں خالصتان تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ بھارت جمہوری ریاست نہیں رہی۔ بھارت میں نسلی‘ لسانی اور مذہبی اقلیتیں خود کو پوری طرح غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت نے جو بویا اسے کاٹنے کا وقت آ پہنچا۔ دہلی کا لال قلعہ ہندوستان کے لئے ہمیشہ اہم رہا۔ آزادی کے بعد بھارت کی حکومتوں نے یوم جمہوریہ کی تقریب کے لئے اس مقام کو مختص کر دیا۔ بی جے پی کی انتہا پسندانہ اور اقلیت دشمن پالیسیوں کا پہلا ردعمل لال قلعہ پر بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف خالصتان تحریک کا پرچم لہرانا ہے۔ کشمیر میں جبر اور ظلم کا بازار گرم کر کے ہمسایہ ریاستوں سے تعلقات کشیدہ بنا کر بھارت کبھی مستحکم نہیں رہ سکتا‘ یہ بات مودی حکومت کو سمجھ لینی چاہیے۔