اگرچہ پچھلے30برسوں سے ہی اسلامیان کشمیر فوجی محاصرے میں ہیں تاہم گزشتہ ایک سال سے اس محاصرے نے سخت اور کڑارخ اختیارکیاہے۔اس مہیب سلسلے کے باوجود پہلے ہی کی طرح کل 15 اگست کوبھارت کایوم آزادی کوکشمیری مسلمان یوم سیاہ کے طورپرمنایاگیا۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ سڑکوں اورچوک چوراہوں پرآکر بھارت سے اظہار نفرت کرتے تھے لیکن کل علیٰ الصبح وہ اپنے گھروں کے بالاخانوںاور دالانوں پہ چڑ کر بھارتی جبرکے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے بھارت سے اظہار نفرت کرتے رہے ۔یہ وہ آزادی پسندقوم ہے کہ جس نے مکروفریب کے جملہ ہتھکنڈوں کوتوڑکر1947ء سے آج تک بھارت کے یوم آزادی کویوم سیاہ کے طور پر مناکر دنیاتک اپنایہ واضح پیغام باربارپہنچادیا کہ ’’دنیاوالوں سن لو! بھارت کے جھانسے میں مت آجائو!کشمیری مسلمان اپنے آپ کوسلطنت بھارت کا حصہ نہیں مانتے اور ان کامستقبل پاکستان ہے‘‘کشمیر میں بھارتی ترنگا جلایا جانے لگا۔ گھروں ، دکانوں ، بجلی کے کھمبوں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جانے لگا اور اب یہ کشمیر میں ایک معتبر روایت ہے کہ بھارت کا یوم آزادی کشمیری مسلمانوں کو غمزدہ اور وادی کے موسموں کو سوگوار کر دیتا ہے۔ہر سال جونہی 15 اگست تاریخ کو کیلنڈر پر دیکھ کر اسلامیان کشمیر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں بھارت کے جشن آزادی میں اپنی غلامی اور بد قسمتی کی سوگوار داستانیں یاد آتی ہیں کہ جب طویل جدوجہد کے بعد برصغیر آزادی سے ہمکنار ہوا تھا مگر کشمیر پر آفتابِ جہاں تاب طلوع ہونے کی بجائے غلامی کی تیرگی مسلط کر دی گئی۔ 15اگست کواحتجاج اورہمہ گیر ہڑتال کے باعث سری نگرشہرسمیت وادی کے تمام قصبوں میں ہوکاعالم ہوتا ہے اور سڑکیں سنساں،دکان مقفل اوربازارمکمل طور پربند پڑے ہوتے ہیں۔جبکہ شام کوپوری وادی میں رات بھر روشنیاں بجھاکر ’’بلیک آئوٹ‘‘ کیا جاتا ہے جسے دیکھ کربھارتی پالیسی سازپاگل ہوجاتے ہیں۔ پاگل پن کے عالم میں وہ ایسی سفاکانہ اور قاتلانہ پالیسیاں بناتے رہے کہ ان پالیسیوں نے ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں چھین لیں جن کی قبروں کی مٹی ابھی گیلی ہے ۔اسلامیان کشمیر نے اپنے ہر شہید کا جنازہ اس عزم کے ساتھ پڑھاکہ تیری قربانی کاسودا کریں گے اورنہ ہی کسی کوکرنے دیں گے۔ اس فلسفہ کوملحوظ رکھتے ہوئے اس امرمیں کسی کو شک اور تردد نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت کے سفاکانہ اقدام اور چانکیہ پالیسی سازوں کا مکر اور دجل اسلامیان کشمیرکو متاثرکرسکتاہے اورنہ ان کے جذبہ حریت کوختم کرسکتاہے۔ یہ وہ قوم وملت ہے کہ جس نے گذشتہ 30 برسوںسے 14اگست پاکستان کے یوم آزادی کو ہمیشہ تلواروں کے سایے میںنہایت جوش و جذبے سے منایا۔ ہرطرف اسی طرح پاکستانی پرچموں کی بہار نظر آتی رہی ،جس طرح پاکستان کے کسی علاقے میں نظرآتی ہے ۔اس کرداروعمل سے گزشتہ 72برس سے اسلامیان کشمیر کی پاکستان سے والہانہ محبت کا بھرپور اظہار ہوتارہاہے۔یہ ہم کشمیری مسلمانوں کی تاریخ ہے کہ ہمارے نوجوانوں وادی میں جگہ جگہ سبز ہلالی پرچم لہراتے رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم کو بلند کر کے سلامی پیش کرتے رہے۔ یونیورسٹی سے کالج اورپھراسکولوں کے طلبہ پاکستان کے جشن آزادی پر ریلیاں نکالتے رہے اورپاکستان کے پرچم کوسلامی دیتے رہے۔ غرض گزشتہ سات دہائیوں تک مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل پاکستان کا یومِ آزادی بھرپور طریقے سے مناکر اس امر کا ببانگ دھل واضح اظہارکرتے ر ہے کہ وہ کسی بھی طور بھارت کی غلامی میں نہیں رہ سکتے اور جلد یا بدیر وہ بھارتی استبداد سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جشنِ آزادی منایا جانا وہ نوشتہ دیوار ہے جسے بھارتی قیادت جتنا جلدی پڑھ لے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس حقیقت سے انکار خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے کہ بھارت اگر کشمیری عوام کو دس لاکھ فوجیوں کے جبر کے ذریعے اپنے ساتھ ملائے رکھنے کامیاب نہیں ہو سکا تو اب یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ ہرکشمیری خاندان میں شہادتیں ہوئیں واقع ہوئیں ہیں اور وہ کس طرح اپنی قربانیوں کا سودا کریں۔ کشمیریوں کا مقبوضہ کشمیر میں پرچم پاکستان لہرانایہ کہنے کی حدتک نہایت آسان ہے لیکن جب دس لاکھ بھارتی درندہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیرکے عوام پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے رہے یہ انتہائی جرات مندانہ اقدام ہے سچی بات یہ ہے کہ اہل کشمیرسچے اورپکے پاکستانی ہیں۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام جہاں 14اگست کویوم آزادی پاکستان نہایت دلجمعی اورلگن سے مناتے ہیں وہیں وہ15اگست کویوم آزادی بھارت کو یوم سیاہ کے طور پر مناکرایک دن کا کشمیر بند مناتے ہوئے گلی کوچوں سڑکوں اوربجلی کے کھمبوں پرسیاہ جھنڈے لہراکر بھارت کیساتھ نفرت کاعملی اظہارکرتے ہیں۔ یوں تو کسی بھی قوم کی طرف سے کسی دوسری قوم کے یوم آزادی کو یوم ماتم اور یوم سیاہ کے طور پر منانا کوئی صحت مندانہ روایت نہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ جب ایک قوم کا یوم آزادی کسی دوسری قوم کا یوم غلامی ہو، یعنی ہندوایسے عالم میںیوم آزادی منائے کہ کشمیری مسلمان کوبالجبرغلام بنائے رکھے ،ایسے میں نفرت و محبت کا یہ سنجوگ فطری ہی تو ہوتا ہے ، اور دھوپ چھائوں کی طرح نوک خنجر ادررگ جاں جیسا15 اگست کے ساتھ اہلِ کشمیر کا کچھ ایسا ہی تعلق ہے۔ 15 اگست جو بھارت کا یوم آزادی ہے، برطانوی استعمار کی غلامی سے نجات کا دن۔ جس کے لیے متحدہ ہندوستان کے لاتعداد اور بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں۔ جس کے لیے جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ کو ہندوستانیوں کے خون سے رنگین کر دیا تھا جس کے لیے 1857 کی جنگ آزادی میں ہزاروں افراد نے قربانیاں دیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 15اگست 1947ء کوجب ہندوستان نے ایک آزادملک کے طور پرابھراتوسب سے پہلے اس نے جس جرم کاارتکاب کیاوہ یہ تھاکہ اس نے کشمیری عوام اور خطہ کشمیر کو اپنا غلام بنانے کا سوچا اور پھر 27 اکتوبر1947ء کو اس فیصلے پر عمل در آمد کر دیا گیا۔ (جاری)