بھارت چانکی جیسی شیطانی چالیں،فاسد تدبیریں، نت نئی ترکیبیںاوردائو پیچ کھیل کراس خطے میں ایٹمی جنگ چھیڑناچاہتاہے ۔یکم مارچ 2022ء منگل کوبھارتی آبدوز کی پاکستان کے سمندری حدود کی دراندازی کے بعد 9 مارچ 2022 بدھ کی شام 6.50پربھارت کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدودکی خلاف ورزی کرتے ہوئے مملکت پاکستان کی سلامتی پر خطرناک وارکرنے کی ایک اور ناکام ونامراد کوشش کی کہ جب40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اس کا ایک سپرسانک میزائل 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پاکستان کے پنجاب کے ضلع خانیوال کے قصبے میاں چنوں پرآ گرا۔ اس طرح بھارت ایک ماہ میں پاکستان کے خلاف دوبار کھلی جارحیت کامرتکب ہوا۔ پاکستان کی طرف سے وضاحت مانگے جانے کے تین دن بعدبھارت وضاحت کررہا ہے کہ ٹیکنیکی فالٹ کی وجہ سے میزائل چل گیا۔بھارتی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ9 مارچ2022 کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوا۔ بھارتی حکومت نے سنجیدگی سے غور کیا ہے اور اعلیٰ سطحی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ کیوںنہ ممبئی یاکولکتہ کی طرف چلا وہ کیوں پاکستان کی طرف ہی چل پڑا تھا ۔ اس حقیقت کو کون نہیں جانتاکہ خطے بھارت نے اپنے پڑوس کے ایک ایٹمی ملک پر میزائل گراکرواضح طور پر اسے للکارااوراسکے صبر کاامتحان لیا۔دوصورتوں میں دنیا کواس کانوٹس لیناچاہئے ایک یہ کہ بھارت نے ایٹمی پاکستان کوجان بوجھ کرکیوں نشانہ بنایا،دوسرایہ کہ پانچ منٹ کے لئے بھارتی جھوٹ کوماناجائے توپھراس بات کانوٹس لینااز بس ضروری ہے کہ بھارت کے ناقص دفاعی نظام کی طرف سے تمام ہمسائے ممالک کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ایک ایسا غیر ذمہ دار ملک کیسے ایٹمی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ 10مارچ2022کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے راولپنڈی میں نیوز بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ 9 مارچ کو بھارتی حدود سے ایک چیز پاکستانی حدود میں داخل ہوئی، پاکستان ایئر فورس نے اس کی مکمل مانیٹرنگ کی، اس حوالے سے ہمارا ایکشن اور ردعمل بروقت تھا۔جبکہ پاکستان کے دفترخارجہ نے بھارت سے سپر سونک میزائل لانچ معاملے کی مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کردیا اور کہا کہ بھارتی میزائل لانچ کو صرف تکنیکی خرابی قرار دینا اور میزائل کے پاکستان میں گرنے پر اظہار افسوس کرنا کافی نہیں، بھارت کو کچھ اہم بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ہوں گے۔9 مارچ کو پاکستان کے شہر میاں چنوں میں گرنے والے بھارتی میزائل پر بھارتی وضاحت کے ردِعمل میں ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ واقعے کی سنگینی سکیورٹی پروٹوکول اور تکنیکی سیف گارڈز کے حوالے سے ایک ایٹمی ماحول میں حادثاتی یا غیر مجاز میزائل لانچ کے حوالے سے کئی بنیادی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سنگین معاملے کو بھارتی حکام کی جانب سے پیش کی گئی سادہ وضاحت سے حل نہیں کیا جا سکتا، بھارت کو کچھ سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ بھارت سے میزائل حادثاتی طور پر چلنے اور میاں چنوں میں دھماکے سے گرنے کے عین وقت پر اس علاقے کے آس پاس 2 بین الاقوامی سمیت4 کمرشل فلائٹ فضا میں تھی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے سوال کیا کہ بھارت واضح کرے کیا بھارتی میزائل معمول کی دیکھ بھال کے تحت بھی لانچ کے لیے تیار کیے گئے ہیں؟انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ بھارت بتائے کہ وہ میزائل کے حادثاتی لانچنگ کے بارے میں پاکستان کو فوری طور پر مطلع کرنے میں کیوں ناکام رہا؟عاصم افتخار نے پوچھا کہ بھارت نے پاکستان کی جانب سے واقعے کا اعلان ہونے اور وضاحت طلب کیے جانے تک معاملے کو تسلیم کرنے کا انتظار کیوں کیا؟ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ نااہلی کی انتہا کو سامنے رکھتے ہوئے، بھارت کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی میزائل کو اس کی مسلح افواج نے ہینڈل کیا تھا یا کچھ مذموم عناصر نے؟ ان کا کہنا تھا کہ بھارت واضح کرے کہ اس کے پاس حادثاتی میزائل لانچ سے بچنے کا طریقہ کار کیا ہے؟انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارت پاکستانی حدود میں گرنے والے میزائل کی قسم اور تفصیل فراہم کرے، بھارت اپنے میزائل کی پرواز کے راستے اور ٹریجیکٹری کی وضاحت دے جبکہ یہ بھی بتائے کہ آخر کار یہ میزائل پاکستان میں داخل کیسے ہوا؟انہوں نے کہا کہ پاکستان اس واقعے کے بارے میں حقائق کا درست تعین کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارتی ساختہ سپر سانک آبجیکٹ کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے معاملے پر بھارتی ناظم الامور کو دفترِ خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا واقعہ بھارتی اسٹریٹجک ہتھیاروں سے نمٹنے میں سنگین نوعیت کی بہت سی خامیوں اور تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے، واقعے کی غلط تشریح، دوسری طرف سے اپنے دفاع میں سنگین نتائج کے ساتھ جوابی اقدامات کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جوہری ماحول میں سنگین نوعیت کے اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور خطے میں اسٹریٹجک استحکام کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ میزائل لانچ کے حوالے سے بھارت کا اندرونی عدالتی تحقیقات کا فیصلہ کافی نہیں کیونکہ میزائل پاکستانی حدود میں گرا ہے۔