سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔ کیسے ہوا؟ کس طرح ہوا؟ وہ سب نے دیکھا۔ مگر اچھا یا برا جو کام تھا پورا ہوا۔ مگر سندھ میںبلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کیا گیا۔ حالانکہ اصل مقابلہ وہاںہونا تھا جہاں پیپلز پارٹی کے پاس اپنے وڈیرہ شاہی کا منظم نیٹ ورک نہیں ہے۔ جہاں دھاندلی اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتی۔ دیہی سندھ میں لوگ سیاسی طور پر اتنے باشعور نہیں ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کی پرامن سیاسی مزاحمت کر پائیں اور اس سے پوچھیں کہ اس نے چودہ برسوں میں کیا کام کیا ہے؟ ہمارے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں اکثر اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پنجاب سے بذریعہ روڈ سندھ کی طرف سفر کر رہے ہوں تو یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو آنکھ کھولنا نہیں پڑتی کہ آپ کی گاڑی ماشاء اللہ سندھ میں داخل ہو چکی ہے۔ کیوں کہ روڈ کے گڑھے اور گاڑی کے ہچکولے آپ کو اطلاع دے دیتے ہیں کہ آپ زرداری کی سیاسی جاگیر میں داخل ہوچکے ہیں۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیںکہ اگر آصف زرداری کی حکومت ناکارہ ہے تو سندھ میں لوگ اس کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ اس قسم کا اعتراض اٹھانے والوں نے شاید اندرون سندھ کے وہ مناظر نہیں دیکھے جہاں زندگی تو دیکھ کر ترس آتا ہے۔ ان کو معلوم نہیں کہ جاگیرداری یعنی وڈیرہ شاہی کیا ہوتا ہے؟ ان کو نہیں پتہ کہ جب پیر، میر،سید اور وڈیرہ آکر گاؤں میں بیٹھ جاتا ہے تب وہ صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ غریب لوگوں سے نوٹ بھی بٹور لیتا ہے۔ ایسی حالت میں لوگ کیا کریں؟ اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالفت میں متبادل کا نہ ہونا پیپلز پارٹی کے لیے بہت فائدے کا باعث ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی مکمل طور پر بے پروائی سے بادشاہی کر رہی ہے۔ کیوں کہ اندرون سندھ اس کو سیاسی طور پرچیلنج کرنے والی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔ لوگ اگر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دیں تو پھر کس کو دیں؟ اگر کسی کو دیں تو پھر پولیس اور وڈیرہ شاہی کا بوجھ کس طرح برداشت کریں؟ اس لیے اندرون سندھ کے لوگ مجبور ہیں۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور ووٹ دیکر اپنے آپ پر ملامت بھی کرتے ہیں۔ حیدرآباد اور کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سے پیپلز پارٹی خوف محسوس کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ اس نے سندھ کی شہری آبادی کے ساتھ بھی ویساسلوک کیا ہے جیسا دیہی آبادی کے ساتھ کیا ہے۔ دیہی سندھ میں تو کام ہوتا ہی نہیں ۔ جب کہ شہری سندھ میں جو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے۔ جو سیوریج اور ٹریفک کے حوالے سے نام نہاد منصوبے عمل میں لائے جاتے ہیں، ان کی حقیقت تو برسات کا ایک شاور کھول کر رکھ دیتا ہے۔ حالیہ برساتوں میں سندھ کا جو حال ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اندرون سندھ کی فوٹیجز تو مکمل طور پر قومی میڈیا پر پیش نہیں ہوتی مگر جو حال حیدرآباد اور خاص طور پر کراچی کا ہوا وہ قابل رحم تھا۔ کراچی میں ایسا کوئی علاقہ نہیں تھا جہاں برسات کا پانی جھیل بن کر لہریں مارتا نظر نہ آیا۔ ہم صرف لالو کھیت اور نظام آباد اور صدر کی بات نہیں کر رہے۔ اس بار تو ڈفینس بھی بارش کے پانی میں ڈوبا نظر آیا۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کو معلوم تھا کہ اسے حیدرآباد اور خاص طور پر کراچی سے ووٹ نہیں مل سکتے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اور متحدہ نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کو کہا اور الیکشن کمیشن مان گیا۔ جماعت اسلامی بلدیاتی اانتخابات کے التواکی خائف تھی۔ مگر الیکشن کمیشن کی یہ دلیل کافی وزنی تھی کہ جب دو بڑی پارٹیاں برسات کے باعث انتخابات ملتوی کرنے کو کہہ رہی ہیں تو ان کی بات سے کس طرح انکار کیا جائے۔ جب وجہ بھی معقول ہو اور مطالبہ کرنے والا بھی معتبر ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہوا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوئے اور یہ بات پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے حق میں گئی۔ کیوں کہ برسات میں کراچی کی جو صورتحال ہوا کرتی ہے اس کو دیکھ کر تو پیپلز پارٹی کے اپنے ووٹر بھی اپنی پارٹی کو ووٹ دینے سے انکار کریں گے۔ پیپلز پارٹی کو اس بار بہت خوف تھا کہ انہوں نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کا جو کاسمیٹک کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کی کافی قلعی تو پہلے ہی کھل چکی ہے اور باقی قلعی برساتوں میں کھلنے والی ہے۔ اس لیے اسے اپنی شکست کے آثار پختہ صورت میں نظر آ رہے تھے۔ جب کہ اس بار ایم کیو ایم بھی پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت ہے اور وفاقی سطح پر وہ بھی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہے۔ اس لیے اس سے پوچھا جانے والا تھا کہ آپ کون سی کارکردگی کے بنیاد پر ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ اس بار تو ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ متذکرہ جماعت کی وہ پوزیشن نہیں کہ ووٹ دینے کو آنے والے ووٹر کو پولنگ بوتھ میں بتایا جائے کہ آپ کا ووٹ کاسٹ ہو چکا ہے۔ آپ اطمینان سے گھر جائیں۔ اس بار متحدہ کو بھی جمہوری اور ورامن سیاست کی لاج رکھنا تھی اور ان حالات میں اس کی جیت بہت مشکل تھی جن حالات میں برسات کے بعد کراچی ہے۔ ایم کیو ایم کچھ بھی کہے مگر شہر کے لوگ سادہ لوح نہیں ہوتے۔ ان کو معلوم ہے اور ان کو کہنا بھی آتا ہے کہ اس بار بھی کراچی کی لوکل حکومت آپ کے پاس تھی مگر آپ نے ڈراموں کے علاوہ اور کیا کام کیا؟ پیپلز پارٹی اور متحدہ کی پریشانی تو سمجھ میں آسکتی ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح اس بار کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کا اعتماد سمجھ میں آرہا تھا۔ جماعت اسلامی ویسے بھی خیر اور خدمت کے چھوٹے کام کرتی رہتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ جماعت نے جو کام نعمت اللہ خان کی میئرشپ میں کیا وہ کام آج تک اہلیان کراچی کو یاد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیسا کام سابق میئر نعمت اللہ خان نے کیا تھا کراچی جماعت کی موجودہ قیادت بھی ویسا کام کرنے کی اہل ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اپنے سبق میئر کی کارکردگی کے باعث کم ازکم جماعت کے پاس عوام کو سنانے کے لیے کچھ تو تھا۔ جب کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے پاس تو عوام سے سننے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اس لیے ان کو خوف تھا کہ برسات کی موسم میں ان کی انتخابی مات کے امکانات زیادہ بڑھ جائیں گے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ کو تو بارش کی وجہ سے کچھ وقت حاصل کرنے کا بہانہ عاصل ہوگیا مگر سوال یہ ہے کہ ہماری سیاست آخر کب تک بہانے بازی کا سہارہ لیتی رہے گی؟ وہ کب حقیقی عوامی خدمت کے راستے پر قدم رکھے گی اور سیاست کو کرپٹ کاروبار کی طرح نہیں بلکہ عبادت کی طرح ادا کرے گی؟ ٭٭٭٭٭