’’محراب ‘‘کا لفظ ’’حرب‘‘سے نکلا ہے، جس کا معنی جنگ کے ہیں۔ عربوں کے دورجاہلیت میں ، میدانِ جنگ میں ایک مخصوص جگہ متعین تھی، جہاں سالارِ جنگ کھڑا ہو کر اپنے سپاہیوں کو ہدایات دیتا ، حوصلے بڑھاتا ، دشمن کے وار سے بچاتا، جنگجو دستوں کو جنگی حکمت عملی سے آگاہ کرتا اور دشمن کو للکارتا۔۔۔ قدیم عربوں کے ہاں اسی مقام کو ’’محراب‘‘کہا جاتا تھا، یعنی حرب اور جنگ کے ایام میں ،راہنمائی اور قیادت کرنے کی جگہ۔ اسلام کی روشنیاں آئیں تو کئی دوسرے الفاظ کی طرح یہ لفظ بھی میدانِ جنگ سے اُٹھا ، اور دینی اصطلاحات کا حصہ بن گیا، او رمسجد میں وہ مقام جہاں خطیب بوقتِ خطبہ اور امام بوقت امامت فروکش ہوتا’’محراب‘‘سے موسوم ہوگیا۔ گویا باطل قوتوں ، شیطانی حملوں اور سماجی برائیوں کے خلاف اپنے سامعین کو مستعد رکھنے، متنبہ کرنے اور نیکی کی ترویج وتبلیغ کے لیے ہمارے خطیب صاحب بالخصوص جمعۃ المبارک کے موقع پر ، اسی محراب میں آراستہ منبر پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ (اس انداز سے’’عربی الفاظ ‘‘کے مراجع اور مصادر ۔۔۔اور پھر ان کی تخلیق ،ابتدااور مختلف ادوار میں ان کا استعمال اور جاہلی دور میں ان کی اہمیت وغیرہ کے ماہر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے معروف استاد مولانا عبدالعزیز میمنی تھے، جن کی علمی مجلسیں بلند پایہ تحقیقی ذوق کی حامل ہوا کرتی تھیں )امتدادِ زمانہ نے اگرچہ ہماری سوسائٹی سے مسجد کے کردار اور خطیب کے رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے باوجود محراب ومنبر آج بھی معاشرے میں موثر اور زود اثر میڈیا کے طور پر معروف اور معتبر ہے ۔ پولیو کی مہم ہو یا ڈینگی کے خلاف آگاہی پروگرام۔۔۔ خطیب شہر کی آواز کی اثر آفرینی سے انکار نہیں ، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ ،جس نے وطنِ عزیز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو ’’خطرناک بم ‘‘سے تعبیر کیا ہے،آبادی پر قابو اور’’برتھ کنٹرول‘‘ کے لیے علماء اور مذہبی سکالرز سے مدد طلب کی ہے ،جو کہ یقینا بجا ہے ۔ آج بھی ہمارے سماجی اور مذہبی رویّے کی تشکیل میں مسجد اور محراب ومنبر کا بڑا کلیدی کردار ہے ۔ آج دنیا بھر میں اسی’’محراب‘‘کو دینی ودنیاوی اور روحانی لشکروں کی نگہبانی کا مقام جانا اور سمجھا جارہا ہے ۔۔۔ ان لشکروں کے سپہ سالار کی’’تہی دستی‘‘اپنی جگہ ، تاہم اس کی اہمیت مسلم ہے۔ یادش بخیر ۔۔۔ ایک مرتبہ توان کو باقاعدہ مسلح کرنے کا پروگرام بھی تشکیل دے دیا تھا۔صدر ایوب خان نے وقف پراپرٹیز آرڈیننس کے ذریعہ محکمہ اوقاف تشکیل دیا،تو مشہور زمانہ آئی سی ایس مسعود کھدرپوش، 8جولائی 1967ئ،کوچیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف مقرر ہوئے۔ مسعود کھدر پوش اپنے مخصوص افکار و افعال کے حوالے سے دلچسپ شخصیت اور اپنی بے باکی کے سبب، بڑی شہرت رکھتے تھے، من جملہ دیگر بہت سی باتوں کے ، ان کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ جب تک علماء کی اپنی ذات، دین کے احکام کا مظہر نہ ہو، عام لوگوں میں دین قبول کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا، جس کے لیے ، ان کے خیال کے مطابق علماء کے لیے’’فوجی تربیت‘‘لازمی ہونی چاہیے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، انہوں نے محکمہ اوقاف کی تمام مساجد کے آئمہ /خطباء کو سرکاری طور پر ایک ایک تلوار مہیا کرنے کا اعلان کر تے ہوئے کہا کہ امام اور خطیب مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی تلقین توکرتے ہیں، مگر خود غیر مسلح ہوتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ محکمہ تاریخی ’’زمزمہ توپ‘‘کی تصویریں اوقاف کی مسجدوں میںآویزاں کروائے گا، تاکہ نمازیوں کو مسلمانوں کے بہادرانہ کردار کی یاددہانی رہے۔مسعود کھدرپوش کی اصلاحات اور خیالات پر اسمبلی سے لے کر ذرائع ابلاغ تک۔۔۔ ہر جگہ تجزیے اور تبصرے ہوئے اور۔۔۔ خوب ہوئے، اور یہ بھی کہا گیا کہ خطبہ دیتے وقت خطیب کے ہاتھ میں تلوار ہوگی۔۔۔ تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔۔۔ بہرحال یہ باتیں کم و بیش نصف صدی پرانی ہے ، مابعدتو ۔۔۔ مساجد و مدارس اور محراب ومنبر نے وہ وہ مناظر دیکھے کہ الامان والحفیظ۔جہاں تک ’’زمزمہ توپ‘‘کی بات ہے تو 1757ء میں نادر شاہ درانی نے اسے تیار کروایا اور 1761ء میں پانی پت کی مشہور جنگ میں استعمال کیا، واپسی پر کابل نہ لے جا سکا، بعد میں سردار ہری سنگھ بھنگی کے قبضے میں چلی گئی، اور پھر’’ بھنگیوں والی توپ‘‘کے نام سے مشہور ہوگئی۔ رنجیت سنگھ نے امرتسر سے بھنگیوں کو نکالا تو یہ توپ اس کے قبضے میں آئی۔ 1818ء میں ملتان کے مقام میں یہ توپ ایسی خراب ہوئی، کہ پھر استعمال کے قابل نہ رہی۔ چنانچہ اسے لاہور لا کر، دہلی دروازے کے باہر اور پھر 1870ء میں مال روڈ، موجودہ مقام پر نصب کر دیا۔ بات زیادہ ہی لمبی ہوگئی، یہ سب ’’برتھ کنٹرول‘‘کے سلسلے میں، مذہبی سکالرز اور علماء کی مدد مانگنے پر یاد آیا۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان سمیت ساری دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ آبادی میں تیز رفتار اضافے کا اور دوسرا شہری آبادی میں اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے اضافے کا ہے۔ یہ کس قدر خوش کن بات محسوس ہوتی ہے کہ 1650ء میں ساری دنیا کی آبادی صرف اتنی تھی، جتنی آج ہمارے صوبے پنجاب کی ہے۔ تقریباً ساڑھے تین سوسال کے اندر دنیا کی آبادی 7ارب کے قریب پہنچ چکی ہے۔1947ء میں آزادی کے وقت پاکستان کی آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی ، اور اس وقت یہ آبادی 20 کروڑ 78 لاکھ ہے، جس کے مطابق، پاکستان آباد ی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک ہے،2030ء میں یہ آبادی 28کروڑ50لاکھ ہونے کا امکان ہے، جس کے ساتھ، پاکستان پانچویں بڑے ملک کے طور پر مزید نمایاں ہو جائے گا۔اس تناظر میں ، محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے قائم’’علماء کمیٹی‘‘نے قوم کو آگاہی دینے کے لیے ایک جامع اور بلیغ ’’جوائنٹ ڈیکلریشن‘‘بھی منظور کیا ہے، جس میں انہوں نے بڑے واضح انداز میں تحریر کیا ہے کہ’’اگر خاندان کے سربراہ کے مالی وسائل یا ماں کی صحت زیادہ بچوں کا بوجھ برداشت نہ کرسکے، تو ’’برتھ کنٹرول‘‘کے لیے جائز طریقوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ متعلقہ محکمہ جات کم سنی کی شادی کے حوالے سے "Child Marriage Restraint Act 1929"کو مزید موثر بنانے کے لیے کوشاں ہیں،جبکہ حال ہی میں بہت سے اسلامی ممالک نے دلہا اور دلہن کے لیے شادی کی کم سے کم عمر کی میعاد مقرر کر دی ہے، جو کہ زیادہ تر صورتوں میں سترہ یا اٹھارہ سال ہے، جبکہ الازہر یونیورسٹی مصر بھی حکومت وقت کوشادی کی عمر مقرر کرنے کا اختیار تفویض کرنے کی رائے دے چکی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ گذشتہ دنوں اسی تناظر میں ،جب ایک سرکاری میٹنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی تو خبر آئی کہ بہاولپور میں ایک خاتون کے ہاں بیک وقت چھ بچوں نے جنم لیا ہے۔