جن کروڑوں مسلمانوں نے 1947 میں بھارت میں رہنے کو ترجیح دی وہ اس وقت اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ ایک بڑی غلطی کر چکے ہیں کیونکہ انہیں اب بھی یہ طعنہ سننا پڑ رہا ہے کہ وہ بھارت میں رہ کر بھی پاکستانی ہیں۔جو ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے پر مامور ہیں جب وہی عوام کے ایک بڑے طبقے سے کہیں گے کہ اس ملک میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں پاکستان چلے جاؤ تو اس بات کو ماننے میں ججھک کیوں؟بھارت میں ہندو راشٹر بنانے کی سوچ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اب اداروں میں بھی اتنی ہی گہری ہو چکی ہے۔ بھارتی آئین کو پس پشت ڈال کر کروڑوں مسلمانوں پر دن دیہاڑے ظلم ڈھایا جا رہا ہے تاکہ وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں حالانکہ یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے 1947ء میں پاکستان کو اپنانے سے انکار کیا اور بھارتی سیکولرازم کے دامن میں پناہ حاصل کی جو اب ایک سراب ثابت ہو رہا ہے۔بھارت میں شہریت سے متعلق حالیہ قانون کے بعد کروڑوں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ وہ اس ملک میں نسل در نسل رہنے کے باوجود پرائے ٹھہرائے جانے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہر ایک مسلمان خود سے سوال کر رہا ہے کہ کیا ہم نے خود اپنے لیے ایک غلط راستہ چنا تھا یا ہماری وہ لیڈرشپ مجرم ہے جس نے نفاق پیدا کر کے پوری قوم کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔بائیس کروڑ بھارتی مسلمان اسی مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں کہ 70 سال کے بعد بھی ان سے وطن پرستی، شہریت یا شناخت ثابت کرنے کا امتحان کیوں لیا جا رہا ہے۔ کیا وہ ہمیشہ مشکوک رہیں گے اور کیا ان کا امتحان کبھی ختم نہیں ہوگا؟ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت نہ تو بھارت میں ان کا کوئی رہنما ہے، نہ یہ متحد ہیں، نہ صاحب حیثیت ہیں، نہ کسی نے ان کو متحد کرنے کی اجازت دی اور نہ ان کو سیاسی اداروں میں مناسب نمائندگی دی گئی۔ بقول ایک تجزیہ کار کانگریس پارٹی مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن تصور کی جانی چاہیے جس نے چالاکی سے اس برادری میں رخنہ پیدا کر کے انہیں پہلے دو حصوں میں بانٹا، پھر بنگلہ دیش بنا کر تین حصوں میں بکھیر دیا. جونا گڑھ، حیدر آباد اور پھر کشمیر کو ہڑپ کر کے بھارت کو سیکولرازم کے لبادے میں دنیا کے سامنے ایسے پیش کیا کہ جیسے مسلمانوں کو وہ سارے حقوق اور مراعات حاصل ہیں جو ہندوؤں کو حاصل ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔چند دہائیاں پہلے اقلیتوں سے متعلق سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مسلمانوں کی ابتری کی تفصیل پیش کی تھی لیکن کبھی اس کی سفارشات پر غور نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے دور حکومت میں میری اتراکھنڈ کی مختلف مسلم تنظیموں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے کانگریس کے ان ہتھکنڈوں کا ذکر کیا جو مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنے اور انہیں منظم ہونے سے روکنے کے لیے کی جا رہی تھیں بلکہ بعض نامور افراد کو جھوٹے معاملات میں پھنسانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آج کل کھلے عام بالکل وہی کچھ کر رہی ہے جس کی بنیاد کانگریس نے کافی عرصہ پہلے ڈال رکھی ہے۔ بی جے پی مسلمانوں پر کھل کر وار کر رہی ہے وہ چاہے بابری مسجد کو ہتھیانا ہو، شہریت ثابت کرنے کا قانون بنانا ہو یا ایسی تجارت پر پابندیاں عائد کرنا ہو جن سے مسلمان منسلک ہیں یا اداروں سے ان کو بیدخل کرنا ہو۔ کانگریس 1947 ء سے پردے کے پیچھے یہی کچھ کر رہی تھی لیکن اس نے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کو گمراہ کر دیا۔ کانگریس کے رہنماؤں کو علم تھا کہ مسلمانوں کی مضبوط لیڈرشپ یا ان کی اقتصادی خوشحالی سے پارٹی کا ووٹ بنک خطرے میں پڑ سکتا ہے۔حقیقت میں کانگریس نے بھارتی مسلمانوں کو سلو پوائزننگ سے مارا جبکہ بی جے پی ایک ہی وار میں زہر دے کر مسلم آبادی کا خاتمہ چاہتی ہے۔کانگریس کے بارے میں مظلوم مسلمان ہمیشہ دھوکے میں رہے اور کانگریسی لیڈروں کو اپنا مسیحا سمجھتے رہے۔ اس وقت بھی کانگریس رہنما مسلمانوں کی ہمدردی میں بہت کچھ کہتے پھر رہے ہیں مگر یہ سب ووٹ حاصل کرنے کا نیا ڈرامہ ہے۔ بی جے پی حکومت کی کٹر ہندو سوچ اس وقت سے واضح ہوگئی تھی جب 1984ء میں پہلی بار بی جے پی پارلیمان میں داخل ہوئی اور آتے ہی بابری مسجد کا قضیہ شروع کر کے پورے ملک میں رتھ یاترا نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اٹل بہاری واجپائی بھی اسی سوچ کو لے کر سیاست میں داخل ہو چکے تھے اور شاید زمانے کی ماڈرن سوچ نے بعد میں انہیں ذرا سا تبدیل کیا۔ ان کے ہم عصر ایڈوانی حیات ہیں اور رام مندر بنانے کا ان کا خواب سپریم کورٹ نے حال ہی میں شرمندہ تعبیر کیا ہے۔ ان کی صحبت میں مودی اور امِت شاہ پلے بڑے ہیں جن کے بارے میں دنیا کو گماں تھا کہ موجودہ ڈیجیٹل دور نے ان کے اندر بسنے والے کٹر ہندو کوتبدیل کیا ہے اور وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو شاید اب کیڑے مکوڑے نہیں سمجھتے یا آر ایس ایس نازی سوچ سے کوسوں دور ہے۔آزادی کے بعد 70 سال تک فرقہ پرست قوتیں شاید انتظار کر رہی تھیں کہ مسلمان خود یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے جب انہیں مذہبی، معاشی یا معاشرتی طور پر پست رکھا جائے گا۔جن کروڑوں مسلمانوں نے 1947 ء میں بھارت میں رہنے کو ترجیح دی وہ اس وقت اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ گو کہ انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ وہ زندگی کی ایک بڑی غلطی کر چکے ہیں کیونکہ انہیں زندگی کے ہر موڑ پر یہ طعنہ بار بار سننا پڑ رہا ہے کہ وہ بھارت میں رہ کر بھی پاکستانی ہیں۔ تاہم ایک بات کا اطمینان ہے کہ وہ آج ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر نہیں جائیںگے جس کے لیے ان کے پرکھوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک او ر وطن بنانے کا مطالبہ کریں گے جیسا کہ اویسی کے بارے میں یہ عام ہے کہ وہ ہندوستان کا دوسرا جناح ثابت ہوگا۔جس طرح جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق گذشتہ سال کے پانچ اگست کے فیصلے پر بھارت نے عالمی اقوام کی حمایت پہلے ہی حاصل کر رکھی تھی بالکل اسی طرح مسلم مخالف قوانین پر حکومت نے مختلف ملکوں کی حمایت حاصل کر رکھی ہے اور ستم یہ کہ ان میں بیشتر مسلمان ممالک پیش پیش ہیں۔ پاکستان ایسے حالات میں نہ صرف ایک تماشائی بنا ہے بلکہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر متحرک کرنے کا عمران خان کا خواب اس وقت چْور چْور ہوگیا جب وہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے۔ اب جو او آئی سی کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ بھارت کو بخوبی ہے اسی لیے وہ اپنی پالیسیوں پر بغیر کسی جھجک کے کوشاں ہے۔بھارت کے مسلمان انتہائی کمزور اور پست ضرور ہیں، مختلف علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں، مضبوط قیادت سے محروم رکھے گئے ہیں مگر جب کوئی انتہائی کمزور ہوتا ہے اور اس کو زندگی کی جنگ لڑنی پڑتی ہے وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہے اور اپنی بازی مار لیتا ہے۔ بھارتی مسلمان مضبوط ہو رہے ہیں اور اپنے حق کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار بھی، بھلے ہی اس میں ان کی شکست ہو یا جیت۔