بھارت میں تقریباً بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے5تا 10 فیصد کو چھوڑ کر بقیہ مسلمان غربت‘ جہالت‘ اور بیروز گاری کا شکار ہیں۔وہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے اپنا اوراپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا جن نمودار ہونے کے بعد یہی غریب ومسکین مسلمان نئی آفتوں کی زد میں ہیں۔ مسلمان ہونے کے باعث اب انہیں تعلیم حاصل کرنے ‘ ملازمت پانے اور گھر ڈھونڈنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خصوصاً قصبوں اور دیہات میں ہندو انہیں اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب پاکستان جیسا بھی ہے‘ یہاں مسلمان آزادی سے اپنے مذہبی عقائد انجام دے سکتے ہیں۔ شدت پسندوں کے محدود طبقے کو چھوڑ کرپاکستانیوں کی اکثریت اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھتی ہے۔آج بھارت میں جو مسلمان اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں انھیں آج قائد اعظم ؒکی وہ باتیں ژدت سے یاد آرہی ہوں گی جس میں آپ ؒ نے فرمایا تھا کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں ۔اس لیے ان دونوں کا اکٹھا رہنا ناممکن ہے ۔آج پاکستانی ہزارہا کارخانوں‘ کمپنیوں اور کارباروں کے مالک ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کو زندگی کی آسائشیں میسر ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل پنجاب،سرحد اور سندھ میں کاروبار و صنعت و تجارت پر ہندو و دیگر غیر مسلم چھائے تھے۔ پاکستان کو آزادی کی نعمت کے باعث ہی ساری خوشحالی نصیب ہوئی۔ نئی نسل کو خصوصاً اس عطیہ خداوندی کی قدر کرنی چاہیے۔بھارت کو ہندو مملکت بنانے کی کوششوں میں مودی سرکاری کے قتدار میں آنے کے بعد تیزی آئی ۔مودی 2001ء میں ریاست گجرات میں ہزارہا مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کرکے ہندو قوم کے ہیرو بنے تھے۔ چناں چہ وزیراعظم بنتے ہی انہوں نے بھارت بھر میں مسلم مخالف مہم کا آغاز کردیا تاکہ ہندو برتری کا سّکہ چلایا جاسکے۔آج بھارت کی سبھی اہم ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں ہندو راج قائم کرنے کے سلسلے میں خفیہ و عیاں بھرپور کوششیں جاری ہیں۔اس وقت کئی ریاستوں میں مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے ’’شدھی تحریک‘‘ چل رہی ہے۔ اسکولوں کا نصاب تبدیل کیا جانے لگا تاکہ اس سے مسلمانوں کا ذکر نکالا جاسکے اور ہندومت کا چرچا ہوجائے۔ سرکاری میڈیا میں ہندی (یعنی اردو) الفاظ کی جگہ سنسکرت الفاظ کا استعمال بڑھ گیا۔ ہندو محلوں میں مسلمانوں کو کرائے پر مکانات دینے سے انکار ہونے لگا۔ ہندو اداروں میں مسلمانوں کو ملازمتیں نہ دینے کا رواج بھی جنم لے چکا ہے۔ (ساجد کاظمی )