مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی جگر نے بھی دل کی بات کہی تھی کہ ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘ تب اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ‘‘ بنیادی بات اصل میں یہی ہے کہ بندہ شیریں سخن نہ سہی کم از کم نرم خو تو ہو۔ کونپل کتنی نزاکت سے زمین کا سینہ چاک کرتی ہے۔ جرس گل بھی بہار کی نقیب ہے۔ اقبال نے بھی ہمیں مرد خلیق کی بات بتائی تھی اور ہجوم مے خانہ کا باعث اس کی دلداری کو قرار دیا تھا۔ ان باتوں کا خیال مجھے جیسنڈراآرڈرن کے رویہ سے آیا جو اس نے نیوزی لینڈ کی حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے اختیار کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے وہ دلوں میں اتر گئی ’’کسی نے دل پہ محبت سے ہاتھ رکھا ہے‘‘۔ اصل میں مجھے ذکر کرنا ہے ایک دعائیہ تقریب کا کہ جو نیوزی لینڈ کے شہدا کے لئے سول سوسائٹی کی تنظیم ’’برداشت‘‘ نے منعقد کی اور اس کی روح و رواں معروف سیاستدان اور سابقہ ایم پی اے محترمہ آمنہ الفت تھیں۔ میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں تلاوت فرمانے والے جناب مولانا نظام الحق تھانوی کے برادر نسبتی مولانا فہیم الحق تھانوی دعا کروانے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ خود آمنہ الفت کا تعلق بھی تھانوی فیملی سے ہے۔ ظہیر چغتائی صاحب اس تنظیم کے صدر ہیں۔ وہاں نبیلہ طارق‘ نادرا وٹو‘ عبداللہ ملک‘ آمنہ عبداللہ‘ محمد اخلاق اور کئی دوسرے سول سوسائٹی کے ممبرز موجود تھے۔ جہاں یہ ایک سوگوار فضا تھی کہ پورے ملک ہی میں ابھی تک ایسا ہی احساس ہے مگر یہ ایک خوشگوار تبدیلی کی بھی آئینہ دار ہے کہ سول سوسائٹی اور لبرل طبقے نے بھی شدت سے محسوس کیا ہے کہ ایک سازش کے ساتھ مسلمانوں کا خون ارزاں کر دیا گیا ہے چنانچہ اب یہ ایک ایسے فورم سے مسلمانوں کے لئے آواز بلند ہونے لگی ہے جسے اہل مغرب اپنا ہمنوا سمجھتے تھے سب کی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی: خدا کے واسطے روکو نہ مجھ کو رونے دو وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے یہ اشک ہی تو ہیں جو دل کی آگ کو بجھاتے ہیں۔ یہ تسلی کے بول ہی تو ہیں جو زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔ یہ ’’برداشت‘‘ تنظیم ایک فعال ادارہ ہے۔ میں پہلے بھی ان کے پروگرامز میں آتا رہتا ہوں اور یہ لوگ بہت محب وطن اور انسانیت کا درد رکھنے والے ہیں۔ پہلی تو بات تو نام ہی سے ہویدا ہے کہ انہیں برداشت کی تجسیم ہونا ہے۔ برداشت کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ عدم برداشت سب بیماریوںکی ماں ہے۔ اسی باعث تو مکالمہ کا فقدان ہے۔ اسی برداشت کی نعمت سے یہ دنیاجنت بن سکتی ہے۔ یہ خوبی معاشرے کو صحت مند بناتی ہے اور فرد میں ایک بانکپن اور وقار پیدا کرتی ہے۔ اس اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو نیوزی لینڈ کے شہدا کے لئے فاتحہ خوانی کی جائے اور ساتھ ہی وہاں کے مسلمانوں اور شہدائے کے لواحقین کے ساتھ بھائی چارہ کا پیغام پہنچایا جائے اور اس سے بڑھ کر اقوام متحدہ کو ایک یادداشت روانہ کی جائے کہ وہ انسانی بنیادوں پر مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کا تدارک کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا بندوبست کرے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام سلامتی سے ہے اور امن کا داعی ہے۔ اس حوالے سے سب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے لیے رطب اللسان تھے کہ انہوں نے ایک مثال قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ مظلوموں کو گلے لگایا۔ سرکاری طور پر جمعہ کی اذان سے لے کر دوسرے معاملات سنوارے۔ ٹرمپ اور اس جیسے دوسرے متعصب لوگوں کے برعکس صاف کہہ دیا کہ یہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان نیوزی لینڈ کے پرامن باشندے تھے جنہیں ایک آسٹریلین نے دہشت گردی سے مارا ہے اور اصل میں یہ نیوزی لینڈ پر حملہ کیا گیا ہے۔ ان باتوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جیسنڈراآرڈرن کو اپنے مسلمانوں شہریوں کے حوالے سے کس قدر اعتماد تھا کہ وہاں کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت بعدازاں نعیم رشید کی اہلیہ کے انٹرویو نے انٹرویو کرنے والوں کو بھی رلا دیا کہ جب اس نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے کہا کہ پتہ نہیں قاتل کے دل میں پیار کی بجائے نفرت کیوں تھی۔ ہم مسلمان تو محبت کرنے والے امن پسند ہیں کیا منظر تھا کہ ’’رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے‘‘ اس کے بعد نعیم کی ماں نے اپنے بیٹے اور اپنے پوتے کی شہادت پر بڑے حوصلے سے کام لیتے ہوئے اسے خدا کی رضا سمجھ کر شکر بجا لائی۔ تلاوت بھی تو وہی کی گئی تھی کہ ’’مشکل وقت میں صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ تبھی تو عنبریں نعیم نے کہا کہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور بلا کسی خوف کے مسجد جائیں گے کہ یہی تو راہ نجات ہے: جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں جو بھی ایک اداسی سی ضرور ہے کہ تعصب کا شکار لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ اس زمین پر امن ہی سلامتی کی علامت ہے۔ ان کے اندر عجب اک خوف جاں گزیں ہو گیا ہے کہ مسلمان ان کے ملکوں پر قابض ہو جائیں گے۔ اسلام پھیل رہا ہے وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اسلام ان کے لوگوں کو آخر کیوں متاثر کر رہا ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک فطری مذہب ہے جو سب کی برابری اور انصاف کی بات کرتا ہے۔ جو نسلی امتیاز کے سراسر خلاف ہے۔ یہ زندگی گزارتا اور موت سے محبت کرنا سکھاتا ہے یقینا وہ تو پریشان ہونگے جو اس زمین کو ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی جگہ سمجھتے ہیں وگرنہ یہ تو امتحان گاہ ہے۔ جب دوبارہ بات کرتے ہیں۔ برداشت کے سیشن کی جس میں پروین گل راجہ عدنان‘ محمد فاروق‘ نزہت حفیظ اور جدران شامل تھے۔ ان کی ساری گزارشات انگریزی میں تھیں مگر بات چیت اردو میں تھی کہ قرار داد تھی۔1۔اسلام کا پہلا پیغام امن ہے۔2۔ بین المذاہب ہم آہنگی ہر وقت کی اہم ضرورت ہے۔3۔ عدم برداشت دہشت گردی کی بنیاد ہے۔4۔ یو این او معاشرتی اور مذہبی عدم برداشت پر اپنا فرض ادا کرے۔5۔ وہ عالمی رہنمائوں اور مذہبی علماء کا مشترکہ اجلاس بلائے۔ اس قرار داد کے ساتھ کہا گیا کہ برداشت کے سب کارکن اور دوست شہدائے کرائسٹ چرچ کے لواحقین کے غم میں برایر کے شریک ہیں۔ آخر میں فہیم الحق تھانوی صاحب نے دعا کروائی اور شہدا کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ برداشت تنظیم کا یہ اجلاس ایک احساس اور ذمہ داری کی نشاندہی کرتا ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لئے احساس کرنا اور پھر اس کا اظہار کرنا آگہی اور شعور کی علامت ہے سول سوسائٹی جاگ رہی ہے اور وہ دنیا میں ہونے والے ظلم پر سراپا احتجاج ہے۔ اس بیانیے کا اظہار دوسرے فورم سے بھی ہونا چاہیے۔ اور اسی آئینے میں ہمیں اپنا آپ بھی دیکھنا ہے کہ ہم آپس میں کیا رویے رکھتے ہیں۔