زندگی ایک طرف پانی کی طرح رواں دواں ہے تو دوسری طرف برف کی مانند پگھل رہی ہے۔ غربت بے روزگاری اور بے انتہا مہنگائی نے عوام کے سارے کس بل نکال دیئے ہیں۔ جو صرف اپنی ذات کے لیے سوچتے ہیں اور کرتے ہیں اُن بے حِس اور خود غرض لوگوں کو ڈپریشن ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے چونکہ اپنے ا صل کو چھوڑ دیا ہے اس لیے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ مولانا جلا ل الدین رومی علم ، عمل اور تصوف کی دنیا میں ایک بہت بڑا نام ہیں کہ جن کی زندگی میں انقلاب اُس وقت پیدا ہوا کہ جب شاہ شمس تبریز نے اُن پر نظر کرم ڈالی بس پھرکیا تھا مولانا روم کی دنیا ہی بدل گئی۔ علم انسان کو شعور اور آگہی دیتا ہے۔ اقبال نے مولانا روم کوایسے تو اپنا مرشد نہیں بنایا تھا کہ جن سے حضرت اقبال نے سوز اور درد لیا تھا ۔مولانا روم کی مشہور زمانہ مثنوی مولانا روم کے آٹھ دفتر ہیں اور یہ پوری مثنوی سوز سے بھر ی پڑی ہے جب ایک صاحب دل اور عشق مثنوی مولانا روم کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو پھر اُسے پتہ چلتا ہے کہ عشق کیا ہے اور علم کیا ہے ا فسوس کہ ہمارے ا ندر سے کتاب بینی ختم ہو رہی ہے بلکہ موبائل کی برکات نے ہمیں کہیں کا بھی نہیں چھوڑا۔ موبائل کے جہاں پر بہت سے فائدے ہیں ۔ تو وہاں پر اس کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے نقصان بھی بہت زیادہ ہو رہا ہے جنہوں نے یہ پرزہ ایجاد کیا وہ تو اس کو ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیںمگر ہم نے اس کو 24 گھنٹوں میں سے 20 گھنٹے ضرور استعمال کرنا ہے اور وہ بھی بغیر کسی ضرورت کے ۔ ہماری آج کی نسل نو تو اپنے مشاہیر کے نام ہی نہیںاپنی تاریخ تک فراموش کر چکی۔ اِس دور میں ہم جیسے دیوانے لوگ ہی نسل نو کو اپنی تاریخ اور علم کی طرف آنے کی دعورت دیتے رہتے ہیں وگرنہ آج ہماری نسل نو کو عشق ایک عباد ت جیسے موضوعات سے کیا لینا دینا، وہ تو عشق کو بھی اپنے نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ کاش آج ہماری نسل نو میں مولانا جلا ل الدین روم اورحضرت اقبال جیسا عشق پیدا ہو جاتا ان کو تو آج یہ بھی معلوم نہیں کہ مولانا جلال الدین روم کون تھے اور علامہ اقبال کو اگر ہم نے نصاب میں شامل نہ کیا ہو تا تو یہ نسل ا قبال کے نام سے بھی واقف نہ ہوتی اور جن نوجوانوں کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ : محبت مجھے اُن جو انوں سے ہے ستاروں پے جو ڈالتے ہیں کمند آج اگر حضرت علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ دیکھتے آج کے ہمارا نوجوان کن چیزوں پرکمند ڈال رہا ہے ویسے کبھی میں یہ سوچنے پر مجبو رہوتا ہوں کہ یار ہم ایسے لوگ بھی تھے کہ جن کے دلوں میں احساس اور درد ہو اکرتا تھا درد اور احساس کہاں گیا۔ ہر دوسرا شخص تو یہاں پر مجھے بھیڑ یا نظر آتا ہے جس کو دیکھو دولت مند بننے کے چکر میں ہے۔ ویسے تو ہم نے دیکھا دیکھی اپنے آپ کو بہت تباہ کر لیا ہے ۔ 1990 ء کے بعد ہمارے معاشرے میں جو سب سے بڑی تباہی آئی وہ صرف اور صرف جائز نا جائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنا تھا اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ جو آج حد سے بھی بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ احترام انسانیت کب سے رخصت ہو چکا ہے ۔ ہمارے تعلیمی ادارے کیا کر رہے ہیں کیا ہم اپنے بچوں کو صحیح معنوں میں تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمارا نصاب کیا ہے اور اُس سے نسل نو میں کیا تبدیلی واقع ہو رہی ہے یہ ہم نے کبھی سوچا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے اور کتنی تحقیقات ہو رہی ہیں تحقیق کے میدان میں ہم کب سے مردہ ہو چکے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن نے نہ جانے اِس اہم ترین پہلو کو کیوں نظر انداز کیا ہوا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کا اصل مقصد ہی یہی تھا کہ ہم طلباء میں ریسرچ کو لے کر آتے صرف مقالہ جات دیکھ کر لکھنا اور آج کل تو موبائل اور انٹر نیٹ کی دنیا میں یہ کوئی مشکل کام ہی نہیں رہا۔ نقل کرنے اور دوسروں کی محنت کو اپنے نام سے چھاپ دینا یہ ہمارے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ اربوں روپے کے بجٹ مختص ہوتے ہیں۔ وائس چانسلر حضرات کے ناز اور نخرے اُن کی ہر چیز فری بڑی ر ہائش گاہیں یہ سب کچھ حاصل لیکن اصل کام نہیں کرتے۔ ہمارے علاقے کی بھی ایک یونیورسٹی ہے کہ اُس کے سابق وائس چانسلر جو ابھی گزشتہ ماہ ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور اب دوبارہ وی سی لگنے کے چکر میں ہیں ۔ لیکن اُنہوں نے غازی یونیورسٹی کے طلباء کو کیا دیا ذرا بتائیں تو سہی۔ جتنا عرصہ بھی یہاں پر رہے وہ مسلسل سوشل میڈیا کی زد میں رہے اور یہی کہ اُنہوں نے غازی یونیورسٹی میں اقربا پروری کو ترجیح دیئے رکھی ۔ اپنی برادری کے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھرتی کرتے رہے یہ ہے ہماری بڑی اور اعلیٰ درس گاہوں کے سر براہوں کا مائنڈ سیٹ ۔ اب آگے کیا خاک ترقی ہو گی یورپ اور دیگر ممالک کے اندر تعلیمی معیار کا ذرا اپنے ساتھ موازانہ تو کر کے دیکھیں ہمیں اپنی تعلیمی ترقی کا با خوبی اندازہ ہو جائے گا۔ وہی سالہا سال سے دیا گیا نصاب پڑھا رہے ہیں لیکن پھر وہی کہ ہم نے اصل چیز جو ریسرچ تحقیق ہے اُس کو چھوڑ دیا ہے یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے طلباء آج تک اپنے علم کے زور پر کوئی نئی تھیوری یا نظریہ پیش نہیں کر سکے۔ قومیں ایسے زوال پذیر نہیں ہوا کرتی سب سے پہلے اُن پر علم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں سے تدبیر اختیار کرو اور اس پر عمل کرو اور ہم نے اپنی سب سے اعلیٰ کتاب کو صرف اپنی الماریوں کی زینت بنایا ہوا ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اب ہم میں جابر بن حیان ، ابن سینا ، طوسی ، عمر خیام ، ابن خلد ون ، امام غزالی ، ابن کیثر ، علامہ جوزی ، جیسے لوگ پید اہونا ختم ہو چکے ہیں اور اِس میں ساراقصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے علم میں تحقیق کو ختم کر دیا ہے ۔