جون دوہزار سولہ برطانیہ میں ایک ریفرنڈم ہوا،اُس ریفرنڈم کے نتائج میں باون فیصدبرطانوی عوام نے یورپی یونین سے انخلاء کے حق میں جبکہ اَڑتالیس فیصدنے مخالفت میں فیصلہ دیاتھا۔ تو یہ قرار پایا کہ اُنتیس مارچ دوہزار اُنیس کو برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا۔مگر یہ بظاہر سادہ سا نظر آنے والا معاملہ سادہ نہیں تھا۔اس ساڑھے تین برس کے عرصہ میں بریگزٹ کی بدولت ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کو 10ڈائوننگ اسٹریٹ کو چھوڑنا پڑگیا۔جون دوہزار سولہ کے ریفرنڈم کے بعد ڈیوڈ کیمرون جو کہ برطانوی وزیرِ اعظم تھے ،نے فوری بنیادوں پرمستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا ۔ڈیوڈکیمرون کے بعد خاتون وزیرِ اعظم تھریسامے سامنے آئی،مگر جون دوہزار اُنیس میں بریگزٹ بحران کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئی ،اور بورس جانسن نے ماہِ جولائی میں اقتدار سنبھالا۔یہاں یہ اَمر واضح رہے کہ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں نہیں تھے۔جبکہ تھریسامے ،برطانوی عوام کے فیصلے سے قبل یورپی یونین سے علیحدگی کی خواہش مند تونہ رہی تھی ،لیکن جب برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دیا تو یہ عوام کی ہم نوابن گئی ۔تھریسامے نے اپنے اقتدار میں بریگزٹ پر عمل درآمدکروانے کی بے حد کوششیں کیں۔مگر اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاقِ رائے قائم نہ ہوسکا۔ بریگزٹ کی بدولت تھریسامے کو عدمِ اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ گیاتھا۔جنوری دوہزار اُنیس میں دارالعوام میں ارکانِ پارلیمان نے تھریسامے کے بریگزٹ معاہدے کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا تھا۔یہ وہ موقع تھا جب لیبر پارٹی کے لیڈرجیریمی کوربن نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی۔یہ عدمِ اعتماد کی تحریک ،بریگزٹ معاہدے کا بھاری اکثریت سے مسترد ہو جانے کی وجہ سے رُونماہوئی تھی۔ بریگزٹ معاہدے کے لیے برطانوی پارلیمان میں ووٹنگ ہوئی ،توتھریسامے کی حکومت کو بھاری ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، معاہدے کو مستردکرنے کے لیے دوسودووٹوں کی ضرورت تھی ، مگر چارسوبتیس ووٹ پڑگئے۔ تھریسامے کی اپنی پارٹی کے ارکان میں سے بڑی تعداد نے اپنی ہی حکومت کے خلاف ووٹ ڈالاتھا۔ یہاں دوسوال بڑی ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ اول:آخر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کیوں چاہتا ہے؟ دوم: برطانوی پارلیمان میں اس معاملے پر اتفاقِ رائے کیوں نہیں ہوپارہا؟پہلے سوال کے ضمن میں معاشی مسئلہ علیحدگی کی بنیادی وجہ ٹھہرتا ہے۔ بے روزگار افرادنے ،جو کہ زیادہ تر آئرلینڈ ،اٹلی ،رومانیہ ،پولینڈ اور دیگر چند ایک ممالک سے تعلق رکھتے تھے،برطانیہ کا رُخ کیا تو معاشی مسئلہ زیادہ گمبھیر ہوتا چلا گیا۔واضح رہے کہ یورپی یونین کے قوانین ،برطانیہ سے یہ متقاضی تھے کہ وہ یورپی یونین کے شہریوں کو اپنے ہاں داخلے کی اجازت دے ۔جب معاشی مسئلہ سنگین ہواتو سماجی سطح پر برطانوی عوام کے اندر اُبھار نے بھی جنم لیا۔یوں معاشی و سماجی اور دیگر کئی پہلوئوں سے برطانوی عوام میں اس بات کا احساس پیدا ہوا کہ برطانیہ جب تک یورپی یونین سے الگ نہیں ہوتا اس کی معیشت اور تمدن کو متعددخطرات لاحق رہیں گے۔خیال رہے کہ یورپی یونین اَٹھائیس ممالک کا اقتصادی گروپ ہے ۔اس گروپ نے مشترکہ مارکیٹ کا تصور دیا تھا۔یورپی یونین کے ممبر ممالک رقوم،خدمات اور عوام کے آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت رکھتے ہیں۔مگر برطانیہ جو یورپی یونین کا اہم رُکن کا درجہ رکھتا تھا،شروع سے شدید تحفظات کا حامل رہا تھا۔برطانیہ نے اپنی کرنسی یورپی یونین سے الگ رکھی۔ڈیوڈ کیمرون نے دوہزار تیرہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ اگر اُن کی پارٹی دوہزار پندرہ کے عام انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ ریفرنڈم کروائیں گے ،جس میں برطانیہ کے عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ڈیوڈ کیمرون نے اپنے وعدہ کو یقینی بنایااور فروری دوہزار سولہ میں ’’نئے یورپی یونین معاہدہ‘‘کا اعلان کیا اور’’بریگزٹ ‘‘ کی اصطلاح منظر عام پر آئی۔دوسرے سوال کے ضمن میںجب جون دوہزارسولہ میں باون فیصد برطانوی عوام نے انخلاء کا فیصلہ کیا تھا ،تو اُس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ انخلاء کس نوعیت کاہو گا؟نیز عوام کے مینڈیٹ کے بعد پارلیمان یہ فیصلہ کرے گی۔مگر بریگزٹ کے معاملے میں برطانیہ کے سیاست دان مختلف رائے رکھتے ہیں۔کچھ کے نزدیک یورپی یونین سے علیحدگی ضروری ہے ،بعض یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ یورپی یونین سے علیحدگی برطانیہ کے لیے نقصان دِہ ہے اورکچھ سیاست دان کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ عوام کو ریفرنڈم کے ذریعے ایک بار پھر فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ جب بریگزٹ پر ڈیڈ لاک برقرار رہا تو ماہِ اکتوبر میںبرطانوی دارالعوام کو قبل ازوقت انتخابات کے بل کو منظور کرنا پڑا۔یہ انتخابات بارہ دسمبر کو قرار پائے اور اس بل کے حق میں چارسواَڑتیس اور مخالفت میں محض بیس ووٹ پڑے۔جب قبل ازوقت انتخابات کا بل منظور ہواتھا تو اُس وقت بورس جانسن نے اس یقین کا اظہارکیا تھاکہ عام انتخابات میں عوام اُنہیں ایسا اعتماد دیں گے ،جس کی بدولت وہ بریگزٹ معاہدہ کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی پارلیمان پر چھائے بحران کو بھی ختم کردیں گے۔اب جب بارہ دسمبر کو ہونے والے برطانوی عام انتخابات کے نتائج کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو واضح کامیابی مل چکی ہے ،اور اس موقع پر بورس جانسن یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ ’ ’بریگزٹ کے لیے مینڈیٹ مل چکاہے‘‘تو دیکھنا یہ ہے کہ و ہ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی دلو ا پائیں گے اور سیاسی بحران پر قابو پا سکیں گے؟