اودبلاو چوہے کی ایک نسل ہے جس کو انگریزی میں بیور کہا جاتا ہے۔ ان کے جسم کی لمبائی اڑھائی سے چار فٹ تک ہوتی جبکہ اونچائی میں یہ ایک سے دو فٹ کے ہوتے ہیں۔ ان کے وزن گیارہ سے تیس کلوگرام ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ان کی نسل 16ویں صدی میں ناپید ہوگئی تھی کیونکہ ان کا بڑے پیمانے پر شکار کیا جاتا تھا۔ برطانوی ان کا گوشت شوق سے کھاتے تھے۔ ان کی بالوں والی کھال بہت قیمتی تصور کی جاتی تھی جبکہ ان جسم سے حاصل کیا جانے والا کاسٹوریم ادویات ، کھانوں اور پرفیوم بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا اس جانور کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں رہتے ہیں وہاں لکڑیوں ٹہنیوں اور پتوں کے ذریعے جنگل میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا دیتے ہیں جو بارش کے پانی کو روک کر جوہڑ اور تالاب بن جاتے ہیں۔ یہ تالاب ان جانوروں کے مسکن ہوتے ہیں۔ان ڈیمز کو بنانے کے لئے یہ جانور درختوں کی کٹائی بھی کرتا ہے۔ یہ پندرہ سنٹی میٹر گولائی والے درخت کو 1 گھنٹے میں کاٹ گراتاہے۔ درخت کو زمین پر گرانے کے بعد یہ آس پاس جھاڑیوں اور پتوں کو جمع کرتے ہیں۔ جب یہ جھاڑیوں اور درختوں کی ٹہنیوں کو گھسیٹ کر لاتا ہو اس پر زمین پر نالیاں بن جاتی ہیں۔ جن کے وجہ سے آس پاس کا پانی بارش کے بعد ان نالیوں میں جمع ہوجاتا ہے یہ جمع ہونے والا پانی ایک چھوٹے جوہڑ اور تالاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اور یہ تالاب ان جانوروں کا مسکن ہوتے ہیں۔ سن 2000 برطانیہ میں ان کی نسل کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا۔ جنوری 2020 میں چند بیورز کو سمرسٹ کے جنگلوں میں چھوڑا گیا اور دسمبر 2020 برطانوی اخبارات اور نیوز میں ان کی اس نئی آبادی کی خبریں ہیڈ لائن بنی کہ بیورز نے ایک ڈیم مکمل کر لیا ہے جو اس علاقے میں اس طرح کا بننے والا 400 سال سے بھی زائد عرصے میں اپنی نوعیت کا پہلا ڈیم ہے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے برطانیہ کے نیشنل ٹرسٹ کے مطابق اگرچہ یہ بظاہر ایک چھوٹا سا معمولی ڈیم ہے لیکن بیور کے تحفظ کی اس مہم کے ذریعے مسقبل میں ماحولیات پر مثبت اثر ہوگا۔ ان جانوروں کے بنائے ہوئے یہ چھوٹے چھوٹے ڈیمز بہت سی دیگر جانوروں اور پرندوں کی جنگلی حیات کے لئے سازگار ماحول فراہم کریں گے اور یہ ڈیمز سیلابوں کی روک تھام میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ نیشنل ٹرسٹ اس وقت 10 ملینز پاونڈز کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا ہے جس کا مقصد برطانیہ کے دریاؤں کو آباد کرنا ہے۔ اور بیورز کی آبادکاری کی یہ مہم اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انسان جب اپنے مفاد کے لئے فطرت کی تخریب کاری پر آتا ہے تو تمام حدیں پار کر دیتا ہے۔یہ ہی حال درختوں کے کٹاو یا جانوروں کے شکار کے وقت کرتا ہے۔بظاہر ایک مکروہ سی شکل کے جانور کا 16 ویں صدی میں شکار کرکے ان کی نسل کشی کرنے والے گوروں کا اس بات کا کیا علم تھا کہ اس ایک جانور کی ناپیدی جنگلی حیات کے لئے اتنی تباہ کن ہوگی کہ چند سو سال بعد ان کی آنے والی نسلوں کو اسی جانور کی آبادکاری پر لاکھوں پاونڈز خرچ کرنے پڑیں گے۔ بے شک خدا تعالی نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت منظم کیا ہے۔ زمین کا ایکو سسٹم رب العالمین کی شان ربوبیت کا مظہر اور حصہ ہے۔ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں علامہ اقبال نے بچوں کے لیا لکھی گئی نظم پہاڑ اور گلہری کے اس شعر میں اس سارے مضمون کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا تھا۔ زمین پر اللہ کے قائم کردہ ایکو سسٹم میں کوئی مخلوق بے مقصد نہیں۔ ہر ایک کا ایک کردار ہے۔ اور ہر مخلوق کا کردار زمین پر موجود حیات دوست نظام کا اہم حصہ ہے۔ مخلوق چاہے پودوں اور جانوروں کی طرح جاندار ہو یہ مختلف مادوں اور گیسوں کی طرح بے جان ان سب میں ایک خاص توازن کی بدولت ہی نظام حیات قائم و دائم ہے۔ زمین پر موجود سب سے چھوٹے جاندار بیکٹیریاسے لیکر برفانی ریچھوں اور ایشیائی ہاتھیوں تک اور فنجائی سے لیکر آسمان قامت درختوں تک کوئی شے بے کار نہیں۔ جب حیوانوں اور پودوں کا یہ حال ہے تو پھر زمین پر چلنے پھرنے والے ہر انسان کی اہمیت کا کیا عالم ہوگا۔ اسی لئے تو قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا اجتماعی نظام آج تک اس ڈگر پر استوار نہ ہو سکا کہ ہمارا عمل اور کردار اس بات کی عکاسی کر رہا ہوتا کہ ہم قدرت کے کارخانے کے سچے قدر شناس اور قدر دان ہیں۔ہم جن کو کافر سمجھتے ہیں وہ قدرت کے اس نظام میں چوہے نما جانوروں کا جتنا خیال کررہے ہیں کاش ہم میں اتنا خیال اپنے قرب و جوار میں رہنے والے انسانوں کا ہی ہوجائے۔ ابھی پچھلے دنوں عالمی حیاتیاتی تنظیموں نے جس قدر اخراجات کاوان ہاتھی کی تنہائی کے خاتمے کے لئے اور اس کو اسلام آباد کے چڑیا گھر سے کمبوڈیا منتقل کرنے کے لئے کئے کاش اس واقعے کو ہی سمجھ کر ہم اپنے ارد گرد رہنے والے تنہائی کا شکار انسانوں کے بارے میں یہ اپنے رویے تبدیل کر لیں۔