بھارت میں اسوقت چار صوبوں ، مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو ، کیرالہ اور مرکزی انتظام والے خطہ پڈوچیری میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ مغربی بنگال کی 294 اسمبلی نشستوں پر انتخابات آٹھ مرحلوں میں 27 مارچ سے 29 اپریل کے درمیان ہوں گے، جب کہ آسام کی 126 نشستوں پر انتخابات 27 مارچ سے 6 اپریل کے درمیان تین مراحل میں منعقد ہوں گے۔ کیرالہ، تامل ناڈو اور پڈوچیری میں 6 اپریل کو بیک وقت انتخابات ہوں گے۔دو مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائیگا۔ ان سب میں مغربی بنگال کا مقابلہ سخت ہونے کا امکان ہے، جہاں مرکز میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے صوبہ میں حکمران ممتا بنرجی کی قیادت والی علاقائی جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس کو ہرانے کیلئے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ 2010 سے قبل 35 برس تک اس ریاست میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی قیادت میں بائیں بازو کا محاذ برسر اقتدار تھا اور دائیں بازو کی موجودگی برائے نام تھی۔ مگر اس بار اس صوبہ میں مقابلہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے درمیان ہی ہے۔اس صوبہ میں مسلم آبادی کا تناسب27فیصد ہے، جن کی اکثریت نے ان انتخابات میں فی الحال ترنمول کانگریس کا ہی دامن تھاما ہے۔ ماضی میں اس ریاست میں انتخابات کی کوریج کے دوران جب مختلف علاقوں آسنسول، مرشد آباد، بردھمان، مالدہ کے قصبوں یا دیہاتوں میں گھومنے کا موقعہ ملتا تھا، تو گلی کے نکڑوں یا چوپالوں پر مارکس، اینجلز، لینن یا ماو زے تنگ کی اقتصادی تھیوریوں اور فلسفہ پر خوب بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ مقابلہ بھی اکثر کانگریس اور بائیں بازو کے درمیان ہی ہوتا تھا ، تو بحث بھی مارکسزم بنام جواہر لال نہرو کے سوشلزم کے ارد گرد ہی گھومتی تھی۔کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کانگریس کو بورژوا اور اپنے آپ کو پرولتاری کہتے تھے۔ اب ان میں اکثر بی جے پی کے خیمہ میں چلے گئے ہیں ۔ اتنی لمبی نظریاتی چھلانگ لگانااو راسکا دفاع کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے۔ رائے عامہ کے جائزو ں میں بتایا گیا ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس اقتدار میں واپس آئیگی، مگر بی جے پی، جس کی ابھی تک ایوان میں بس تین سیٹیں تھی، لمبی چھلانگ لگا کر 294رکنی ایوان میں 107کے قریب نشستیں حاصل کرنے والی ہے۔ بنگال میں ویسے تو ہندو قوم پرستی کی جڑیں بہت پرانی ہیں تاہم بائیں بازو کے محاذ کے دور اقتدار میں اس کا اثر نہایت ہی کم ہو گیا تھا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے بی جے پی نے اس ریاست میں رقوم خرچ کرکے اور دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو لبھا کر ہندو قوم پرستی کا احیا ہے۔ گزشتہ روز بالی وڈ کے معروف اداکار متھن چکرورتی بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے اور کولکتہ میں مودی کے ساتھ انہوں نے بھی ریلی سے خطاب کیا۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے سابق کرکٹر سوربھ گنگولی کو بھی رام کرنے کی بھر پو کوشش کی اور ان کو وزیر اعلیٰ بنانے تک کی پیشکش کی ہے۔ متھن چکرورتی بھی کمیونز م سے خاصے متاثر ہوتے تھے۔گنگولی اور چکرورتی کمیونسٹ پارٹی کے دور اقتدار میں بائیں بازو کے جید لیڈروں جیوتی باسواور سوم ناتھ چٹرجی کے کافی قریبی بھی جانے جاتے تھے۔ چکرورتی نے چند ہفتے قبل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔جس کے بعد ان کو بی جے پی میں داخل کرایا گیا۔ مغربی بنگال کے بعد 2018 میں لیفٹ فرنٹ نے شمال مشرق کی ایک اور ریاست تری پورہ کو بھی 25 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد گنوادیا۔ اس صوبہ میں 2013 میں اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو صرف 2.1 فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ2018 میں اسکو40 فی صد ووٹ ملے ۔ مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس نے لیفٹ فرنٹ کو شکست دے کر حکومت چھین لی تھی، لگتا تھا کہ عوام بہت جلد وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی سیمابی فطرت سے تنگ آ کر دوبارہ لیفٹ فرنٹ کا دامن تھامیں گے۔ مگر لیفٹ فرنٹ کی سیاسی زمین پر جس تیزی کے ساتھ بی جے پی قبضہ کر رہی ہے، اس سے بس یہی نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی دیوی کی بس ایک نظر کرم کے سامنے نظریات ہیچ ہیں۔ 1996 اور 2008کے بیچ بائیں بازو محاذ بلندیوں پر تھا۔اس دوران دیو گوڑا، اندر کمار گجرا ل اور بعد میں من موہن سنگھ کی پہلی حکومت ان کی ہی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ مغربی بنگال اور تری پورہ میں شکست کے بعد اب کیرالہ ہی ایک ریاست ہے جہاں کمیونسٹ بر سر اقتدار ہیں۔ کیرالہ میں بھی مخلوط حکومت ہے۔ کیرالہ میں ایک دفعہ لیفٹ فرنٹ تو دوسری دفعہ کانگریس کی قیادت میں قائم محاذ یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ الیکشن جیت جاتا ہے۔مگر اس بار رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پناری ویجائن کی قیادت میں کمیونسٹ فرنٹ دوبارہ اقتدار میں آئیگا، کیونکہ ان کے حریف کانگریس کی قیادت والے فرنٹ میں لیڈروں کے درمیان اور ٹکٹوں کے حصول کیلئے گھمسان پڑا ہوا ہے، جو اس صوبہ کا خاصہ نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ پچھلی بار کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی اسی صوبہ سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوگئے تھے، اسی لئے ماضی کے برعکس کانگریس کے مرکزی لیڈروں کی طرف سے ٹکٹوںکے بانٹنے میں مداخلت نے مقامی راہنماوٗ ں کو ناراض کردیا ہے۔ یہ غالباً واحد صوبہ تھا جہاں کانگریس پارٹی کی مرکزی کمان اپنا کوئی امیدوار نہیں تھوپ دیتی تھی بلکہ یورپی ممالک کی طرز پر انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے تھے۔ اس صوبہ میں بھی سیندھ لگانے کیلئے آر ایس ایس اوربی جے پی کمر کس رہی ہے۔اسلئے انہوں نے معروف ریٹائرڈ ا نجینئر اور دہلی میٹر ٹرین سمیت کئی دیگر مشکل ریلوے پرجیکٹوں کے خالق ای سری دھرن کو بطور وزیر اعلیٰ کے امیداوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔ 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق اس صوبہ کی آبادی میں ہندوئوںکا تناسب 56 فیصد مسلمانوںکا 25 فیصد اور عیسائیوںکا 19فیصد ہے۔صوبہ کے نامور قانون دان کے راج کے مطابق چونکہ اس صوبہ میں اقلیتوں کا تناسب کم و بیش 50فیصد ہے، اسلئے ہندو قوم پرستوں کی دال شاید ہی گل جائے۔مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیفٹ فرنٹ یعنی کمونسٹ مغربی بنگال، تری پورہ اور دیگر علاقوں میں ہو رہی ہزیمت سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی مقابلہ کرنے کے بجائے وہ اقتدار کا سہارا لیکر غنڈہ گردی پر زیادہ تکیہ کرتے ہیں۔ امیت شاہ کے مطابق صوبہ میں پچھلے کئی برسوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سیکڑوں اراکین ہلاک کر دئے گئے ہیں۔ اسکو بنیاد بنا کرہندو انتہا پسنداپنے آپ کو مظلوم و مقہور جتلا کر ہندو نوجوانوں کی ہمدردیا ں بٹورنے میں مصروف ہیں۔ آر ایس ایس نے لو جہاد یعنی مسلمان لڑکوں کے ذریعے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر دام محبت میں پھنسا کر بعد میں ان کا تبدلی مذہب کرانے کا مفروضہ اسی صوبہ سے شروع کیا تھا۔ اس صوبہ کی ایک اور خاص بات ہے کہ دیگر علاقوں کے برعکس کیرالہ کے مسلمان اپنی سیاسی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی اس طاقت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ ہے۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے اسوقت 18اراکین ہیں۔ یہ کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا ایک اہم جز ہے۔ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اب اپنی جگہ بنالی ہے، ان میں جماعت اسلامی ہندکی حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ اور سوشلسٹ ڈیموکریٹک فرنٹ آف انڈیا شامل ہے۔