برازیل ، روس ، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل گروپ BRICS کا 14واں سربراہی اجلاس 23 جون کو منعقد ہوا ہے۔ اِجلاس کی میزبانی گروپ کے موجودہ صدر ہونے کی حیثیت سے چین نے کی ہے۔ اَلبتہ یہ سربراہی اِجلاس ورچوئل منعقد ہوا ہے جس کی صدارت چینی صدر شی جن پنگ نے کی اور ممبران ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی ہے۔ برکس، دنیا کے پانچ بڑے ترقی پذیر ممالک پر مشتمل اِقتصادی تعاون کا گروپ ہے جو مجموعی طور پر عالمی آبادی کا 41 فیصد ، عالمی جی ڈی پی کا 24 فیصد اور عالمی تجارت کا 16 فیصد ہے۔ عالمی سیاست کے منظر نامے پر اِس وقت اَمریکہ اور چین کے مابین معاشی مسابقت، روس اور یوکرائن کے مابین جنگ جیسے اہم عوامل کارفرما ہیں، جن کے عالمی سیاست پر دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جبکہ کرونا نے دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والا عالمی نظام امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا شکار ہوگیا،جس نے تمام دنیا بالخصوص پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں پر منفی اثرات ڈالے جس کا خمیازہ انہیں باہمی مخاصمتوں اور کشمکش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق، امریکہ اور چین کے مابین جاری اِقتصادی مسابقت کا نتیجہ ممکنہ طور پر دوسری سرد جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے،جس سے بچاؤ کیلئے امریکہ اور چین کے رہنماؤں کو ذمہ دارانہ رویہ اِختیار کرنا چاہئے۔ عالمی سیاست کے اِس منظر نامے میں BRICS کی کیا اہمیت ہے اور یہ کس حد تک اَثرورسوخ کا حامل ہوسکتا ہے؟عالمی سیاست کی موجودہ حرکیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس کالم میں اِس پر بحث کی جائیگی۔ 2006 میں ، برازیل ، روس ، بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ نے پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ملاقات کی ، جس میں برک(BRIC)تعاون کے آغاز کی نشاندہی کی گئی۔ جون 2009 میں، (BRIC) رہنماؤں نے اپنی پہلی میٹنگ روس میں منعقد کی،جس میں برک تعاون کو سمٹ لیول پر اپ گریڈ کیا گیا۔2011ء میں،جنوبی افریقہ کے باضابطہ طور پر رکن بننے کے بعد، BRIC کو BRICS میں بڑھا دیا گیا۔ 2009 کے بعد سے ،برکس رہنماؤں نے 13 رسمی اجلاس اور 9 غیر رسمی اجلاس طلب کیے ہیں۔ 2017 ء میں چین نے برکس زیامین سمٹ کی کامیابی سے میزبانی کی۔ برکس رہنماؤں نے متفقہ طور پر قریبی، وسیع اور زیادہ جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دینے،اور تین سطح پر مبنی تعاون کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا،جس میں معیشت،سیاسی سلامتی اور عوامی سطح پر وفود کے تبادلے شامل ہیں۔ برکس رہنماؤں نے برکس تعاون کا خیال بھی پیش کیا جس سے مشترکہ طور پر برکس تعاون کے دوسرے سنہری عشرے کا آغاز کیا گیا۔ BRICS کے حالیہ 14واں سربراہی اجلاس کے اِختتام پر جاری ہونے والے اِعلامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ممبران، گروپ کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں کیونکہ اِعلامیہ کے الفاظ میں "ہم دیگر EMDCs تک اپنے تعاون کو بڑھانے کی برکس کوششوں پر زور دیتے ہیں اور 2021ء میں برکس کی طرف سے اپ ڈیٹ شدہ حوالہ کی شرائط کے مطابق برکس آؤٹ ریچ اور برکس پلس تعاون کو مزید فروغ دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم 19 مئی 2022 کو برکس وزرائے خارجہ/بین الاقوامی تعلقات کی میٹنگ کے دوران 'عالمی حکمرانی میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ممالک کے بڑھتے ہوئے کردار' کے عنوان سے ڈائیلاگ سیشن کی میزبانی کے لیے چین کی چیئر شپ کی تعریف کرتے ہیں"۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین جاری معاشی مسابقت ایک مستقل مخاصمت میں تبدیل ہوکر دوسری سردجنگ کی شکل اِختیار کرسکتی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے بارہا اِس بات کا اِظہار کیا ہے کہ مغرب کو چین اور روس جیسی مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ لڑائی کا سامنا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر کا اِشارہ آئیڈیالوجی کی جنگ کی طرف ہے جو کہ سردجنگ کا خاصا تھی۔ اَلبتہ چینی قیادت نے اِس بات کی ہمیشہ نفی کرتے ہوئے اِسے سرد جنگ کی ذہنیت قرار دیا ہے اور اِس اَپروچ کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ میرے خیال میں امریکہ اور چین کے مابین مفادات کا ٹکراؤ تو ضرور ہے مگر امریکہ اور روس کی طرز کی سرد جنگ کے اِمکانات کم ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ چین کا کردار ہے کیونکہ چین نہ تو اَپنی آئیڈیالوجی دوسرے ممالک میں پھیلانا چاہتا ہے اور نہ ہی چین میں خالصتاً سوشلسٹ نظامِ حکومت ہے۔ مزید یہ کہ چین کی قیادت آنے والے دنوں میں کسی بھی قسم کی مستقل اور جاری رہنے والی کشمکش کی جانب رغبت نہیں رکھتی بلکہ اَقوامِ متحدہ پر مبنی کثیر القومی بین الاقوامی نظام کے قیام پر زور دیتا ہے۔برکس سمٹ سے خطاب میں صدر شی نے کہا کہ "ہمیں سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہیے اور محاذ آرائی کو روکنا چاہیے اور یکطرفہ پابندیوں کی مخالفت کرنا چاہیے۔ اَہم ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ممالک کے طور پر ، برکس ممالک کو اَپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے۔" اِس تناظر میں BRICS کا کردار عالمی افق پر مزید اہمیت اِختیار کرگیا ہے کیونکہ برکس تعاون کا اثر پانچ ممالک سے آگے نکل گیا ہے اور عالمی اقتصادی ترقی کو بڑھانے،عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی تعلقات میں جمہوریت کو فروغ دینے کیلئے ایک تعمیری قوت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ برکس پَلس تعاون کا نظریہ ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی پذیر ملکوں کو اپنی طرف راغب کررہا ہے جس کی تازہ ترین مثال ارجنٹائن کی ہے جسے چینی قیادت نے حالیہ اجلاس میں بھی مدعو کیا تھا۔ بَرِکس تعاون کو ترقی پذیر ممالک نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے اور اقوام متحدہ ، جی20،ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے کثیر الجہتی میکانزم میں بھی اس کی حیثیت اور کردار بڑھ گیا ہے۔ اِس لیے پاکستان کو بھی چاہیئے کہ جیو اَکنامک اَپروچ کو مکمل طور پر اِختیار کرتے ہوئے اَپنی معیشت کو مضبوط بنائے اور اِنڈیا سمیت اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اَپنے تجارتی روابط کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے تاکہ اِقتصادی تعاون کے علاقائی اور عالمی گروپس کا بھرپور حصہ بن سکے۔ برکس ممالک کو اَپنے گروپ کو ترقی پذیر ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بنانا چاہیے اور یہ جی 20 کی طرز پر ترقی پذیر ملکوں کے مابین تعاون کیلئے ایک مؤثر گروپ کے طور پر ابھر سکتا ہے۔