بھارتی سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا متعصبانہ فیصلہ سنایا ہے۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد کو 1528ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔1853ء میں ایک ہندو گورو نے دعویٰ کیا تھا کہ بابری مسجد جس جگہ پر تعمیر کی گئی یہ جگہ نہ صرف ہندوئوں کے دیوتا شری رام کا جنم استھان ہے بلکہ مسجد کی تعمیر سے پہلے اس جگہ رام مندر تھا۔ اس بے سروپا دعویٰ کے بعدبرطانوی حکومت نے مسلم ہندو تنازع کو دیکھتے ہوئے مسجد کے چاروں اطراف خار دار باڑ لگا دی اور ہندوئوں اور مسلمانوں کے لئے الگ الگ عبادت گاہوں کے نشان لگا دئیے۔6دسمبر 1992ء میں ایل کے ایڈوانی کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا تو 27سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے بجائے اس کے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر اور تاریخی شواہد کے برعکس مسجد کی جگہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کو معطل کر کے انصاف کرنے کے مسلمانوں کے حق دعویٰ کو ہی مسترد کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا متعصبانہ فیصلہ سنادیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کا خون اور متعصبانہ ہے بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب پاکستان بھارتی سکھوں کے مقدس مقام تک ویزا فری سہولت فراہم کر رہا ہے۔ مودی سرکار کے مسلم دشمن عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں