2018ء میں IVLPپروگرام کے تحت امریکہ یاترا کا موقع ملا پانچ ریاستوں میں جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کرنے اور بات چیت کے ذریعے انہیں جاننے کی کوشش کی۔ پہلا پڑائو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں تھا۔ یخ بستہ دسمبر کے دنوں میں واشنگٹن ڈی سی کا شہر ایک دلآویز تصویر کی طرح حسین نظر آتا۔ موسم خزاں میں بھی سبز پتے سرخ اور زرد رنگوں کی عجب بہار دکھاتے تھے۔ عام امریکیوں سے لے کر دانشوروں میڈیا سے وابستہ صحافیوں پروڈیوسروں لکھاریوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ امریکیوں کو میں نے اپنے حال میں مست خوش باش لوگوں کی طرح پایا۔ ہماری طرح انہیں سیاست پر گفتگو کرنے کا بھی کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔ گفتگو میں اگر کہیں ٹرمپ کا نام لے لیا تو وہ مسکرا کر بات کو ٹال ہی جاتے تھے۔ کوئی ایسے سماجی ناانصافی کے ایشوز بھی نہیں تھے۔ نہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا مسئلہ انہیں پریشان کرتا کہ وہ بھی ہماری طرح ہمہ وقت سیاست اور سماج کے ٹیڑھ پن پر کڑھتے ہیں۔ معاشی اور سماجی طور پر ایک مستحکم معاشرے میں رہنے والے باسیوں کو اپنی ریاست اور شہر کے متعلق بھی کوئی زیادہ معلومات رکھنے کا شوق نہیں ہوتا۔ سو ایسے خوش گزران اور آسودہ حال امریکیوں کو جب میں ایک کالے ہم وطن کی پولیس کے ہاتھوں بھیانک موت پر گھروں سے باہر سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے اور اس معاشرے پر رشک بھی آتا ہے کہ اس کو کہتے ہیں باشعور اور زندہ معاشرہ۔ایک کالا پولیس کے ہاتھوں کیا مارا گیا کہ پورا امریکہ سڑکوں پر آ گیا ہے۔ نہ کسی نے کوئی سیاسی کال دی چلو چلو وائٹ ہائوس چلو۔نہ کوئی سیاسی رہنما اس ساری صورت حال کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔بس عام لوگ ہیں مگر سماجی شعور رکھتے ہیں سماج کے اندر ایک فرد کی اہمیت اور طاقت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لئے جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل پر آواز اٹھانے اور نسلی امتیاز کے ظلم کو برداشت نہ کرنے عزم کا اظہار کرنے کے لئے وبا کے اس غیر محفوظ موسم میں بھی امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مسلسل آٹھ دن ہو چکے ہیں احتجاج کی یہ آگ مدھم نہیں پڑ رہی۔ وائٹ ہائوس کے باہر ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی کیا جمع ہوئے کہ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس کے بنکر میں پناہ لینا پڑی۔ ٭٭٭٭٭ Black Lives Matterکی یہ تحریک پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ تعصب کی بدترین آگ میں جلتے۔ ایک گورے پولیس اہلکار نے آٹھ منٹ اور چھیالیس سکینڈ تک اپنا گھٹنا دبائے تاوقتیکہ کہ وہ لمبا تڑنگا جارج فلائیڈ بے جان ہو گیا اب عین اس جگہ پر پھولوں کے ڈھیر پڑے ہیں لوگ آتے ہیں۔ اور تعزیتی کارڈوں کے ساتھ وہاں پھول رکھتے ہیں۔ عقب میں جارج کی قد آدم تصویر رکھی گئی جس پر لکھا ہے ’’I Can breath now‘‘یہ الفاظ جارج کی ان چیخوں کا ردعمل ہے جب اس کی گردن گورے پولیس اہلکار کے گھٹنے کے نیچے دبی ہوئی تھی اور وہ بار بار کہتا تھا I Can breath now۔اس جگہ کو اب مقدس سمجھا جا رہا ہے۔ امریکی اپنی فطرت اور ہر لحاظ سے تاریخی نہیں اور یقینا اس سے ایک نئی تاریخ جنم لے گی صرف امریکہ میں نہیں بلکہ دنیا بھر کا پسا ہوا طبقہ اور طاقت ور کے ہاتھ استحصال زدہ طبقہ، اپنے اپنے سماج میں اس تحریک کا ایک حصہ بن جائے گا۔ بات کالے کے استحصال پر احتجاج سے آگے بڑھ کر ہر سماج میں اقلیت اور کمزور استحصال کے خلاف احتجاج تک جائے گی۔ امریکی ریاست Missouri(می ضوری) کے شہر فرگوسن میں مقامی سطح کے الیکشن ہوئے جس میں شہر کا میئر چنا جانا تھا۔7اپریل کو یہ الیکشن ہونا تھے مگر وبا کی وجہ سے ملتوی ہوئے۔ اب 2جون 2020ء کو یہ الیکشن ہوئے تو شہر نے گورے امیدوار کے مقابلے میں کالے رنگ کی ایفروامریکن ایلدجونز کو منتخب کرکے عملی طور پر Black lives matterکی تحریک کو آگے بڑھایا ہے۔امریکہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک باشعور اور زندہ معاشرے کی علامت ہے ایک ہم وطن کے قتل پر پورا ملک اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر سڑکوں پر پرامن احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے مقابل ہمارے معاشرے کی تصویر بہت بھدی اور بدصورت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون‘ سانحہ ساہیوال تو بڑے سانحے ہیں۔ یہاں تو لوگ گھریلو ملازمائوں کی بدترین تشدد کر کے مار دیتے ہیں۔ چند روز کی خبریں کارروائیاں اور پھر معاملات داخل دفتر ہو جاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں ننھے بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بڑی بہن کو سرکاری اہلکاروں نے سیدھی گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ احتجاج ہم بھی کرتے ہیں اپنے اپنے کمفرٹ زون میں بیٹھے ہوئے فیس بک پر احتجاجی پوسٹیں لگاتے ہیں۔ دوستوں کی پوسٹوں کو لائیک کرتے ہیں۔غم و غصہ کچھ زیادہ ہو تو اپنی وال پر دھانسو سے مضامین لکھ کر دانشوری جھاڑتے ہیں۔ سیاستدانوں ‘نظام اور حکومت کو کوستے ہیں۔ مزید انقلاب لانے کا شوق ہو تو اپنی پوسٹوں اور احتجاجی ویڈیوز کو واٹس ایپ کے سارے گروپوں میں شیئر کر کے ایسے دامن جھاڑتے ہیں گویا انقلاب ابھی آیا کہ آیا۔ ناانصافی کا بازار گرم رہے گا اور ہم سوشل میڈیا پر بیٹھ کر انقلاب انقلاب کھیلتے رہیں گے۔بدلے ہوئے امریکیوں کو دیکھو خوش گزران اور آسودہ حال امریکی اپنے کمفرٹ زون سے باہر سڑکوں پر وبا کے اس غیر محفوظ موسم میں احتجاج کرتے پھرتے ہیں۔!!