یہ طلب بھی تو کسی خاص عطا ہی کا صدقہ اورنتیجہ ہے۔وگرنہ تو سرکار،دربار،حکومتیں،ادارے،این جی اوز۔۔۔ مغربیت ہی کے فروغ اور جدّت پسندی و روشن خیالی ہی کے ابلاغ میں توانائیاں صَرف کرنے کو ترجیح دیتی ہیں،تاکہ دنیا کے سامنے ہمارا "soft image" زیادہ نکھر کر سامنے آئے۔ ربیع الاوّل ۔بہارِ عالم،جمال منظر،کمال نکہت،ہزار بہجت، بساطِ رحمت،نشاطِ الفت،کلیدِ جنّت۔۔۔ ظہور قدسی کی نِکہتوں اور رنگتوں کو تقسیم کرتا،ہم سے رخصت ہو رہا ہے۔ویسے زمان و مکان کی تو کوئی قید نہیں۔۔۔سارے زمانے میرے حضور ﷺ کے قدموں سے روشنی پاتے۔۔۔جاودانی لیتے اور ضیاء حاصل کرتے آگے بڑھ رہے ہیں جیسا کہ حضرت اقبالؒ نے کہا تھا: ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو آں کہ از خاکش بروید آرزو با ز نورِ مصطفیؐ او را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است یعنی :’’تُو جہاں کہیں بھی رنگ و بُو کا جہاں دیکھتا ہے، ہر وہ جہاں،جس کی خاک سے آرزو پھوٹتی ہے یعنی جس میں کمال کو پہنچنے کی آرزو جنم لیتی ہے،یا تو اس کی قدر و قیمت حضرت محمد ﷺ کے سبب سے ہے اور یا پھر وہ ابھی مصطفی کریم ﷺکی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کمال یہ ہوا کہ رواں ماہِ مقدس کی برکات اور میلادِ مصطفی ﷺ کی فیوضات سمیٹنے کے بعد،پنجاب حکومت نے ’’ہفتہ شانِ رحمۃٌلِلّعلمین ﷺ‘‘کے عنوان سے،صوبہ بھر میں شاندار تقریبات سے آراستہ ایک جامع اور مفصل پروگرام وضع کردیا ، جن کا بنیادی مقصد نبی اکرم،رسولِ محتشم،خَاتَمُ النَّبِیِّیْن حضرت محمد مصطفی ﷺکے ساتھ اپنی ایمانی اورقلبی وابستگی کے اظہار،آپ ﷺکی عظمت ورفعت کے بیان اوربالخصوص عالمی سطح پر اس امر کا ابلاغ ہے کہ مسلمان اپنے رسول کے ساتھ کس قدر مضبوط اور مستحکم وابستگی کے حامل اور وہ آپ ﷺکی محبت کو اپنے ایمان کی جان اور بنیاد اوراپنی زندگی کا اثاثہ اور حیات کا سرنامہ تصوّر کرتے ہیں۔پنجاب کے وزیرا علیٰ اس وقیع اور عظیم پروگرام کی ا ز خود نگرانی کررہے ہیں،جوکہ ذاتِ رسالت مآب ﷺکے ساتھ ان کی نسبت اور محبت کا مظہرہے۔اس پروگرام کی بہت خاص بات صوبہ کی مختلف جامعات میں’’رحمۃٌ للعالمین چیئر‘‘کا قیام اور سیرتِ طیبہ ﷺ اور اُسوئہ حسنہ پر ریسرچ کے لیے سکالر شپس کی تخلیق،سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں قرأت ونعت اور سیرت طیبہﷺ پر تقریری مقابلوں کا انعقاد، نعتیہ مشاعرے،محافل سماع اور اس کا نقطۂ کمال’’عالمی مشائخ و علماء کنونشن‘‘ہے،جس کے لیے ایس اینڈ جی اے ڈی،محکمہ خزانہ،ہائر ایجوکیشن،اوقاف اور محکمہ اطلاعات ایک جامع اور مربوط حکمتِ عملی وضع کرنے میں مصروف ہیں،اسی طرح صوبہ بھر کے تمام کمشنرز صاحبان بھی ویڈیو لنک کے ذریعے دو روز پہلے کے اجلاس میں شریک تھے،میر ی ذاتی رائے کے مطابق یہ اقدامات،سیرتِ نبویہ کی ترویج وتبلیغ کے حوالے سے بہت تاریخی نوعیت کے ہوں گے۔قبل ازیں وزیرا عظم بھی بارہ ربیع الاوّل کو رحمۃ للعالمین سیرت النبی ﷺ کانفرنس میں ساتویں،آٹھویں اور نویں کلاس میں سیرت طیبہﷺکا باقاعدہ مضمون شاملِ نصاب کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔موجودہ حکومت کے ان اقدامات کی دینی اور روحانی برکات اپنی جگہ۔۔۔کہ یہ بہت بڑا کارِ خیر ہے،اس کے معنوی اور حقیقی ثمرات ایک روادارانہ فلاحی اورانسانی سوسائٹی کی صورت میں اس خطّے کو نصیب ہوں گے (انشاء اللہ)۔ بدقسمتی سے،سیرتِ طیبہﷺاور اُسوئہ حسنہ سے ہم اُس طرح اکتسابِ فیض نہیں کرسکے،جیسے کیا جانا چاہیے تھا ،اسی وجہ سے ہماری سوسائٹی تشدّد اور انتہا پسندی کا شکار رہی اور ہم ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں مصروف رہے ۔بالیقین سیرت طیبہ ﷺہی وہ چشمۂ فیض ہے جو ہر دور کے انسانوں کے لیے مینارئہ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔اس چشمۂ کرم سے اربوں انسانوں کی تاریک زندگیوں کوہدایت اور روشنی فراہم ہوئی ہے۔محققین نے حیاتِ طیبہ ﷺ اور تعلیمات نبویہ ﷺ پر انتہائی محبت،محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرکے تحقیق وجستجو کے نِت نئے زاویے وَا کئے اور یہ سلسلۂ خیر انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا ۔آپ ﷺکے اُسوہ پر عمل پیرا ہو کرہی۔۔۔آج بھی انسانیت فکری ،نظریاتی،علمی واخلاقی اعتبار سے اوج کمال تک پہنچ سکتی ہے اور ہمیں معاشرتی زندگی میں علم وآگہی،امن وسکون اور رواداری وبُردباری جیسی نعمتیں میسر آ سکتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں،ان میں ایک اہم ترین یہ ہے کہ " لا تَنْقَضی عجائبہ"یعنی قرآن کے عجائب و غرائب کبھی ختم نہیں ہوں گے،قرآن مجید سے ہمیشہ نئے نئے مطالب اور معانی و مفاہیم نکلتے رہیں گے،ہر آنے والا لمحہ قرآن کے حقائق و معارف کا ایک نیا جہان لے کر آئے گا۔قرآن کے بطن میں ابھی کتنے عوالم پنہاں ہیں اور ابھی کتنے مناظر اور مشاہد انسانوں کے سامنے آئیں گے۔اسی طرح ابھی صاحبِ قرآن کی سیرت اور ارشادات میں پنہاں حقائق و معارف بھی۔۔۔لامحدود اور لا متناہی ہیں۔یہ ایک متلاطم سمندر ہے۔یہ محض کوئی شخصی سوانح عمری نہیں بلکہ ایک تہذیب،ایک تمدن،ایک قوم،ایک ملّت اور ایک الہامی پیغام کے آغاز و ارتقاء بلکہ عروج اور نقطہ کمال کی ایک انتہائی دلچسپ عمدہ اور مفید داستان ہے۔ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے بھی بعض مسائل اور نفسیاتی عوارض ہیں ،کہ وہ مغرب سے آنے والی ہر تحریر اور فکرہی کو تحقیق اور تدریس کا عمدہ اور بے مثل نمونہ سمجھتا ہے،ایسے ہی طبقے کے بارے میں حضرت اقبالؒنے سو سال پہلے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ پست فطرت ہوتا جا رہا ہے۔اُن کی فطرت کی یہ پستی اپنی انتہاؤں کو چھوتی محسوس ہو رہی ہے،اور اَب اس کے اثرات قرآن و حدیث سمیت دیگر اسلامی علوم و فنون پر عدمِ اطمینان کی صورت میں سامنے آتے محسوس ہونے لگے ہیں۔بایں وجہ بالخصوص سیرتِ طیبہ ﷺ اور پھر ان کی ابتدائی تدوین،تاریخ اور ارتقا کا جاننا اور اس میں خود کو منہمک کرنا از حد ضروری ہے۔آج کی بات کو یہیں پر روکتے ہوئے امریکہ سے معروف دانشور ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی طرف سے آج ہی عطا شدہ اشعار اپنے قارئین کی نذر کرتا ہوں: محمدﷺ کہ ذوالجلال کا ہیں مظہر جلال محمدﷺ کہ ذات نور کا ہیں مشہدِ جمال محمدﷺ کہ دستِ حق کی ہیں تخلیق کا کمال محمدﷺ وحید و مانعِ تمثیل و خوش خصال محمدﷺ ہیں اپنی ذات میں بے مثل و بے مثال عدو آپ کا مکَسَّر و اَبتر ، لعین ، ضال محمدﷺ ہیں کائنات میں نورانیت کا ناز محمدﷺ ہیں کل جہان میں انسانیت نواز محمدﷺ عروجِ آدمِ خاکی کا ایک راز محمدﷺ کی نسبتوں سے ہے نوعِ بشر فراز محمدﷺ ہیں ہر ضعیف کے ہمدرد و غم گسار محمدﷺ ہیں ہر یتیم کے مفلس کے چارہ کار