عید قربان کی آمد آمد ہے۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق قربانی کے لیے ذہنی اَور مالی َطور پر خود کو تیار کر رہا ہے۔ ہمارے دوست نواب اِقتدار علی خان نے اِس سلسلے میں آٹھ ماہ پہلے ہی منصوبہ بندی کرلی تھی ؛ یعنی بکری کا ایک ّبچہ خرید لیا تھا اَور اُس کی ٹہل سیوا کے لیے پانچ َسو روپے ماہوار پر اِنسان کا ایک ّبچہ ملاز ِم رکھ لیا تھا جس کے ذ ِ ّمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ ُوہ ماڈل ٹائون کی َہری بھری پارکوں کی مدد سے بکری کے ّبچے کی پرورش کرے۔ یہ فرض اُس اِنسان کے ّبچے نے نہایت محنت اَور ُسوجھ ُبوجھ سے اَدا کیا۔ چنانچہ اَب بکری کا ّ بچہ اُس لڑکے کے مقابلے میں زیادہ ّصحت َمند اَور توانا لگتا ہے۔ اِنشاء اللہ عید کے روز بکرے اَور لڑکے‘ دونوں کی چھٹی ہو جائے گی: بکرا عا َلم بالا کی راہ لے گا اَور لڑکا اپنے گھر کی! ناطق مرزا صاحب بکرا پالنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اُنھوں نے پچھلے سال دو ہزار روپے ماہوار کی کمیٹی ڈال دی تھی جو اِس ماہ کی پانچ تاریخ کو اُنھیں مل گئی ہے۔ یہ کمیٹی اُنھوں نے خصوصی َطور پر بکرے کی خا ِطر ڈالی تھی۔ پانچ چھے روز سے ُوہ روزانہ جیب میںبیس ہزار روپیہ ڈال کر نکلتے ہیں اَور شام تک پھر ِپھرا کر واپس آ جاتے ہیں۔ اگر چہ ابھی تک اُنھیں کوئی ڈھنگ کا بکرا نہیں مل سکا ؛لیکن بکروں کا مسلسل پیچھا کرتے کرتے ُوہ بکرا سپیشلسٹ ہو گئے ہیں۔ کل ہی فرما رہے تھے کہ بیس ہزار روپے میں جو بکرا ِملتا ہے‘ اُس کے گوشت کا حساب کیا جائے تو دوہزار روپے کلو پڑتا ہے۔ میں نے اُن کی خدمت میں اِلتجا کی: خدا کے لیے راز کی یہ بات قصائیوں کو نہ بتا دیجیے گا؛ ورنہ گوشت کا ِنرخ یک دم دو ہزار روپے کلو کرنے کا بہت اچھا بہانا اُن کے ہاتھ آ جائے گا! ہمارے سامنے والی کوٹھی میں شیخ محمد صدیق رہتے ہیں۔ لاہور کی کلاتھ مارکیٹ میں اُن کی کپڑے کی دُکانیں ہیں۔ قدرت نے اُن میں قربانی کا جذبہ ُکوٹ ُکوٹ کر بھر رکھا ہے۔ پچھلے سال اُنھوں نے قربانی کے لیے پانچ بکرے خریدے تھے جن پر تقریباً َسوا لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ ایک روز میں نے اُن کی نوکرانی کو اِشارے سے پاس ُبلا کر ُپوچھا: اِس سال شیخ صاحب کے کیا اِرادے ہیں؟ ابھی تک بکرے نظر نہیں آ رہے ۔ کہنے لگی: اِس سال شیخ صاحب اَیبٹ آباد سے ُپورے چھے بکرے منگوا رہے ہیں۔ آج ہی اُن کے چھوٹے بھائی َہوائی جہاز پر اَیبٹ آباد گئے ہیں۔ کیا بات ہے شیخ صاحب کی ! قربانی کے لیے پہاڑی بکروں سے بہتر بکرے کا تصو ّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اچھا یہ بتائو ،کیا بکرے بھی بائی ایئر آ رہے ہیں… میرا مطلب ہے‘کیا جہاز پرآ رہے ہیں؟ یہ میں ُپوچھ کر بتائوں گی۔ نہ‘نہ ‘نہ‘ ُخدا کے لیے یہ غضب نہ کرنا … اُن سے ذ ِکر بھی نہ کرنا کہ پروفیسر صاحب بکروں کے بارے میں ُپوچھ رہے تھے! آپ کتنے بکرے دے رہے ہیں؟ اُس نے اچانک ُپوچھ لیا۔ مجھے اُس سے ایسی گستاخی کی توقع تو نہ تھی؛ لیکن اُس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اُس نے یہ سوال یونہی بھولپن میں کر دیا ہے۔ لہٰذا میں نے کہا: ابھی تو میں سوچ رہا ُہوں‘ کتنے بکرے دُوں …اُمید ہے‘ شام تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائوں گا! اچھا صاحب جی‘سلام! ٭٭٭٭٭ مجھے آج سمندری سے موصول ہونے والی ایک خبر کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گوہر ِنایاب کسی بھی گھرانے میں َپیدا ہو سکتا ہے… اَور تو اَور‘ گدھوں کاگھرانہ بھی اِس اُصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بعض اَوقات اَیسا اَیسا یگانہ ٔروز گار گدھا د ِکھائی دے جاتا ہے کہ اُسے گدھا کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہوا ُیوں کہ سمندری کے ایک طالب ِ علم‘ فرحان محمود نے اِس سال میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اَب اُس کی خواہش تھی کہ کسی کالج میں داخلہ لیا جائے۔ اپنی اِس خواہش کا اِظہار اُس نے گدھے کے سامنے بھی کیا جس کے جواب میں اُس نے دائیں بائیں َسرہلادیا۔ اِس کا مطلب تھا: اِتنے کم نمبروںپر کسی تگڑی سفارش کے بغیر داخلہ نہیں مل سکتا۔ لیکن فرحان نے اُسے گدھا سمجھتے ہوئے اُس کی اِس حرکت پر کوئی تو ّجہ نہ دی۔چند دن بعد فرحان نے بڑے فخر سے گدھے کو اِطلاع دی کہ اُس کے داخلے کا بندوبست ہو گیا ہے۔ اِس کے جواب میں گدھے نے شرمندہ ہونے کے بجائے پھر دائیں بائیں َسر ہلایا جس کا مطلب تھا : اِس َدور میںڈ ِگریوں کے پیچھے َدوڑنا گدھا َپن ہے۔ ِتحصیل علم کا اِرادہ ترک کرو اَور ِتحصیل َزر کے لیے کسی خلیجی ملک کا رُخ کرو! فرحان نے اُس کی بات کو سمجھتے ہوئے جواب میں کہا :تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمھاری طرح جاہل رہوں! لیکن میں گدھا نہیں ُہوں کہ تمھاری باتوں میں آجائوں۔ یہ گدھا ذہین تو تھا ہی؛ لیکن بدقسمتی سے بلڈپریشر کا مریض بھی تھا اَور چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آجاتا تھا۔ فرحان کی بات کو اِس نے اپنی سخت توہین سمجھا اَور کھڑے کھڑے اِس بدتمیزی کا بدلہ لینے کا اِرادہ کر لیا۔ ُوہ چاہتا تو اُسی وقت اُسے دو ہارس پاور یعنی تینڈونکی پاور کی دو ّلتی رسید کر دیتا لیکن مہذب ہونے کی ِبنا پر اُس نے جاہل گدھوں کی طرح دو ّلتی مارنا خلاف ِ شان سمجھا اَور بدلہ لینے کے لیے کسی مناسب مو ِقع کا اِنتظار کرنے لگا۔ اگلے روز فرحان نے بڑے چائو سے داخلے کے لیے ضروری کاغذات مکمل کیے اور اُنھیں سونے سے پہلے َسرھانے کے نیچے رکھ لیا تاکہ صبح اُنھیں ڈھونڈنے میں وقت ضائع نہ ہو۔ گدھا کن انکھیوں سے ساری کارروائی دیکھتا رہا۔ اَب رات کے گیارہ بجے تھے۔ قصبے پر ُہو کا عا َلم طاری تھا۔ فرحان خواب ِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ گلی سے ایک ُ ّکتے کے َبھونکنے کی آواز آئی اَور اگلے ہی لمحے خاموشی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی۔ یہی ُوہ لمحہ تھا جب گدھے نے اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لیے پہلا عملی قدم اُٹھایا‘ پھر دُوسرا اَور پھر تیسرا؛ چوتھے عملی قدم پر ُوہ چارپائی کے نزدیک پہنچ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اُس نے َسرھانے کے نیچے سے نہایت آہستگی کے ساتھ پلاسٹک کا ُوہ لفافہ نکالا جس میں فرحان نے اپنا میٹرک کا سر ٹیفکیٹ (دیگر کاغذات کے ساتھ) رکھا ُہوا تھا اَور اِطمینان سے اُسے چبانا اَور کھانا شروع کر دیا۔ تمام تراحتیاط کے باوجود گدھے َپن کی ایک حرکت اُس سے َسر َزدہو ہی گئی۔ لفافہ اَور کاغذات چبانے کے عمل میں چند ٹکڑے اُس کے ُمنہ ‘سے زمین پر ِگر گئے جنھیں ُوہ اَندھیرے کی وجہ سے دیکھ نہ پایا۔ اُس نے آہستہ سے ڈکار لیا اَور تھوڑی دیر میںگہری نیند سو گیا۔ فرحان صبح اُٹھا تو لفافے کو غائب پا کر ّسناٹے میں آگیا۔ اُس نے اِدھر اُدھر لفافہ ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ گدھا اُسے پریشان حال دیکھ کر د ِل ہی د ِل میں مسکرا رہا تھا کہ اچانک فرحان کی نظر زمین پر ِگرے ہوئے ٹکڑوں پر پڑ گئی جن پر گدھے کے دانتوں کے نشان صاف د ِکھائی دے رہے تھے۔ اُس نے گدھے کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں تھیں۔فرحان کا شبہ یقین میں بدل گیا۔اُس نے آئو دیکھا نہ تائو، َجھٹ ا با جان کا ریوالو َر نکالا اَور …ڈزن… ڈزن… یکے بعد دیگرے اُس پر تین فائر داغ دیے۔ گدھا شدید زخمی ہو گیا اَور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے جہان سدھا گیا۔