عمران کی کامیابی نے سیاست کے تمام اہل تقوی ، درویشوں ، فقیروں اور تارک الدنیا قلندروں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ان قائدین کی بزرگی ، درد دل ، بصیرت ، سادگی ، اور تقوی سے انکار نہیں۔سوال یہ ہے کہ ان میں قدر مشترک کیا ہے؟ کس قیامت کا یہ منظر تھا۔ محترمہ شیری رحمان سر پر دوپٹہ لیے بغیر میڈیا سے ہمکلام تھیں اور قائد انقلاب قبلہ لیاقت بلوچ سر پر ٹوپی اور جناب عبد الٖغفور حیدری سر پر پگڑی رکھے ہاتھ باندھے فرمانبرداری سے ان کے پہلو میں کھڑے تھے۔شاید چشم تصور سے اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتے دیکھ رہے ہوں۔ان دونوں اکابرین کے کندھے پر ہاتھ رکھے قبلہ انس نورانی بھی گویا یہ اعلان فرما رہے تھے کہ ہم ہی ہیں نقیب صبح صداقت۔جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ لیاقت بلوچ ہی تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہم طالب علموں کو سیدھا راستہ دکھاتے ہوئے تلقین کی تھی کہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت کرنا اس لیے بھی لازم ہے کہ عورت تو ناقص العقل ہوتی ہے اور ریاست ایک ناقص العقل کے حوالے کیسے کر دی جائے۔اس کے بعد انہوں نے اسلامی انقلاب کے لیے نواز شریف کی قیادت میں ڈٹ جانے کا مشورہ دیا اور راہ حق میں استقامت کی دعا کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔برسوں بعد اب میں پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ناقص العقل عورت میڈیا کو بریف کر رہی تھی اور جید اکابرین ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔محترمہ شیری رحمان کے بالکل پیچھے کمال سعادت مندی سے ہاتھ باندھے جناب احسن اقبال کھڑے تھے۔جی ہاں وہی احسن اقبال جو قوم کو ڈراتے تھے کہ زرداری آ گئے تو تمہاری نسلیں تباہ ہو جائیں گی ۔ تب کیا عالم شوق تھا، شہباز شریف فرمایا کرتے تھے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر دولت نکالیں گے ۔ انہی ایام میں یہ نعرہ مستانہ بلند ہوا کہ ان کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ ایک اور تصویر بھی ہے۔ بیچ میں حضرت مولانا فضل الرحمن کھڑے ہیں۔ ان کے ایک جانب جناب شہباز شریف ہیں اور دوسری طرف جناب سراج الحق۔اس سے یاد آیا کہ یہ امیر جماعت اسلامی ہی تھے جنہوں نے تین نومبر 2012 کو پشاور کے افغان فٹ بال گرائونڈ میںعلماء و مشائخ کانفرنس بلا کر فضل الرحمن صاحب پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اول وہ لٹیروں سے مل گئے، دوم وہ امریکی ایجنٹوں کے ساتھی بن گئے اور سوم انہوں نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا۔یہ بھی ایک امیر جماعت ہی تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے لیے بڑی برائی اور مسلم لیگ ن کے لیے چھوٹی برائی کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ قائدین اسلامی انقلاب کے پیچھے دیکھا تو قوم پرست بھی قطار میں کھڑے نظر آئے اور لر او بر یو افغان کے علمبردار بھی ۔گویا’ ’اسلامی انقلاب ،چھوٹی برائی ، بڑی برائی ، قوم پرست ، امریکی ایجنٹ‘‘ سب کے سب اکٹھے نظر آ ئے۔علم و حکمت اور فضیلت و تدبر کے موتیوں سے گویا ایک مالا سی پرو دی گئی۔ اس کہکشاں کو دیکھا تو خیال آیا یقینا کوئی بہت ہی بڑا اور عظیم مقصد ہو گا جس کے لیے ان عظیم قائدین نے اپنی اپنی انا کو بالائے طاق رکھا اور اکٹھے ہو گئے۔ وہ مقصد کیا ہے؟اول آدمی سوچتا ہے شاید کوئی اسلامی جذبہ ہے جس نے ان تمام قائدین انقلاب کو ایک چھت تلے جمع کر دیا ہے ۔پھر خیال آتا ہے کہ اس اجتماع مبارک کا مقصد کم از کم اسلامی انقلاب تو نہیں ہو سکتا۔ یہ مقدس فریضہ تو صرف مجلس عمل نے انجام دینا ہے ۔شہباز شیریف، شیری رحمان ، محمود اچکزئی ، اسفند یار ولی، آفتاب شیر پائو وغیرہ وغیرہ کی سیاست تو کبھی اسلامی انقلاب کے لیے نہیں رہی۔یہ سب نظریاتی قائدین انقلاب ہیں اور کوئی بھی نظریاتی قائد انقلاب اپنے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ تو کیا یہ سب کرپشن کے خاتمے کے لیے اکٹھے ہوئے ایک خیال آتا ہے کہ شہباز شریف پی پی پی کے دوستوں سے یہ کہنے نہ آئے ہوں کہ زرداری کو میں نے سڑک پر تو لازما گھسیٹنا ہے بس آپ سڑک کا انتخاب خود کر کے مجھے بتا دیں۔یا سراج الحق جو اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف ان کی جدوجہد کی وجہ سے نااہل کیے گئے اب یہاں تشریف لائے ہوں کہ جملہ اکابرین کو کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں آگاہ فرما سکیں؟لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔کرپشن تو ان بزرگان سیاست کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔یہ سب مل کر وزارت عظمی اور سپیکر کے لیے اپنا امیدوار لا رہے ہیں۔ملا نصیر الدین بھی ہوتا تو سر پیٹ لیتا اور کہتا بھائی سراج الحق اتنی بھی کیا درویشی؟ ابھی کل تک تو تم خوش ہو رہے تھے کہ تم نے قانونی جنگ لڑ کر کرپٹ نواز شریف کو اقتدار سے نکالا ، اب تم اسی نواز شریف کی جماعت سے مل کر مشترکہ امیدوار لا رہے ہو۔ بزرگان بقلم خود کا ارشاد ہے وہ جمہوریت کی بالادستی ، ووٹ کی عزت، دھاندلی اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے خاتمے کے لیے ایک ہوئے ہیں۔اب یہ موقف ایسا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چند سوالات کا پیدا ہونا لازم ہے۔اس وقت تک یہ اعزاز صرف ایک گروہ کو حاصل ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاست پر جو شب خون مارا اس پر سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے۔شب خون مارنے والے اس گروہ کا نام اسلامی جمہوری اتحاد تھا ۔ پورے کا پورا ایک بنک اس گروہ کو نوازنے میں برباد ہو گیا۔سراج الحق کی جماعت اسلامی بھی اس میں شامل تھی اور صالحین کے امیر المومنین کے طور پر نواز شریف کو لایا گیا۔ ان متقی اور نیک لوگوں نے مل کر قومی سیاست میں وہ گند ڈالا کہ الامان و الحفیظ۔ آج اچانک یہ جمہوریت کے چمپیئن بن بیٹھے اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے خاتمے کا مقدس مشن لے کر چلنے کا دعوی کر رہے ہیں تو ماضی کے نامہ اعمال پر تو روشنی ڈالتے جائیں۔کوئی اظہار ندامت ہی کر لیں۔ رسما ہی سہی تھوڑے سے شرمندہ تو ہو لیں۔جس وقت عدنان کاکا خیل پر ویز مشرف کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے تھے اس وقت مشاہد حسین سید آمر کے پہلو میں بیٹھ کر دانت نکوس رہے تھے۔ سر پیٹ لیجیے یہ مشاہد حسین صاحب بھی لیاقت بلوچ اور شیری رحمن کے درمیان ہاتھ باندھے جمہوریت کے ستون کے طور پر کھڑے قوم کے شعور کا مذاق اڑا رہے ہیں۔پولیٹیکل انجینئرنگ کے خاتمے کے لیے صورت شمشیر پھرنے والے قبلہ سراج الحق اور عالی جاہ فضل الرحمن اس راز سے تو پردہ اٹھا دیں کہ مشرف دور میں ایم ایم اے کو خلق خدا نے مُلا ملٹری الائنس کا لقب کیوں دیا تھا؟ یہ بزرگان بقلم خود گزشتہ اسمبلی کا حصہ تھے۔ آج یہ اپنی شکست کو دھاندلی کے شور میں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے پارلیمان کا حصہ ہوتے ہوئے انتخابی اصلاحات پر توجہ کیوں نہیں دی۔اپنے مفاد پر ضرب پڑی تو سب اکٹھے ہوئے۔ کسی قومی مقصد کے لیے یہ کبھی اکٹھے کیوں نہ ہو سکے؟یہ سب اسی طرح مل کر کہتے انتخابی اصلاحات کی جائیں تو یہ کام اب تک ہو چکا ہوتا۔ یہ اسی طرح مل کر پانی کے مسئلے پر بات کرتے تو ڈیم بن چکے ہوتے۔انہوں نے اسی طرح غریبوں کے مسائل ، صحت اور تعلیم کے مسائل پر بات کی ہوتی ہم ایک فلاحی ریاست بن چکے ہوتے۔لیکن افسوس یہ اس وقت اکٹھے ہوتے ہیں جب ان کا ذاتی اور گروہی مفاد خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ بزرگان کے کمالات دیکھیے۔ اچکزئی کی جماعت کے نصف درجن سے زیادہ لوگ ایم ایم اے سے ہارے اور کچھ کو اے این پی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن یہ صاحب اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔دھاندلی واقعی بری چیز ہے۔ دھاندلی نہ ہوئی تھی تو انس نورانی نے تو پنجاب کا وزیر اعلی بن جانا تھا اور سراج الحق صاحب نے پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میں بھی اپنی حکومت قائم کر لینی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پہلے جب دھاندلی نہیں ہوتی تھی تو جماعت اسلامی تین بر اعظموں پر دو تہائی اکثریت سے حکومت قائم کیا کرتی تھی۔