بہاولپور کے نواح میں واقع اپنی بستی کو میں نے پچھلی صدی کی آخری دہائی میں الوداع کہا تھا لیکن اس دن سے لیکر آج تک واپسی کے خیال سے نہیں نکل سکا۔ وہاں مجھے ساون کے گرد لپٹی لو اور حبس کے علاوہ زندگی گزارنے میں کبھی کوئی مشکلات نظر نہیں آئیں۔ زرخیز زمینوں کو پانچ سے چھ مہینے نہری پانی میسر ہوجائے تو کون سی فصل ہے جو یہاں نہیں ہوتی، کونسی سبزی اور پھل یہاں نہیں اگائے جاسکتے۔ پرندے اور جانور پالنا چاہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ملوں اور دفتروں میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے اور پردیس کی صعوبتیں جھیلنے کی بجائے یہی وقت کھیتوں اور مال مویشیوں کو دیں تو نرا منافع کا سو دا ہے۔ سڑکوں کا جال بچھا ہے، میٹرک تک بچوں کی تعلیم کا بندوبست بھی ہے۔اعلٰی تعلیم کے لیے بہاول پور موجود ہے۔ حیرت انگیز حد تک اس ساری ترقی کا سہرا ایک طرف تو سستا ڈیزل تھا تو دوسری طرف کپاس۔ لوگ کنویں سے ٹیوب ویل اور بیل سے ٹریکٹر کی طرف آئے، پوری ایک دہائی میں پیسہ تھا تو مکان پکے کرائے گئے، سڑکیں بنیں ، بجلی آئی۔ لوگوں کا رہن سہن اور اطوار ہی بدل کر رہ گئے۔ پچھلی دو دہائیوں سے ایک طرف تو کپاس کی فصل وائرس کی نظر ہوئی ہے ، دوسرے نہری نظام کے پھیلائو کی وجہ سے میٹھے پانی والے رقبوں کا نہری پانی کم ہوا ہے۔ تازہ افتاد ، جو پچھلی دو دہائیوں میں پڑی ہے، وہ ڈیزل کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہے۔ قصہ مختصر ، کاشتکاری منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ زندگی کی ضروریات اس کام میں ہاتھ ڈالیں تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے علاوہ گھروں کو پختہ اور روشن کرنے اور مہنگی زراعت کا بوجھ اٹھانے کے لیے مائوں نے اپنے بیٹے شہروں کو بھیجے۔مل مزدوروں کی ایک پوری نسل تیار ہوئی جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر ہے۔جو لوگ پڑھ لکھ گئے ، انہوں نے شہروں کا رخ کیا۔ یا تو وہ واپس ہی نہیں آئے یاپھر انہیں احساس دلایا گیا کہ واپسی کا خیال رہنے دیں، یہاں کچھ نہیں رکھا۔ ادھر آپ واپسی کے لیے کسی صلاح کریں ، ادھر لوگوں پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ آخر کیوں اسلام آباد جیسے ٹھنڈے شہر کو چھوڑ کر روہی کنارے دھوپ میں جھلستی بستی میں آباد ہوناچاہتے ہیں۔ یوں پیچھے سکول ماسٹر، لائن مین، ریلوے ڈرائیور ، کلرک اور چپڑاسیوں کا طوطی بولتا ہے جنہیں لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے اور پنشن بھی ،ہلکا پھلکا زمیندارہ بھی چلتا ہے اور بجلی کے بل بھی ادا ہوپاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ بستی آنا جانا نہیں ہوتا۔ سوائے پچھلے دو سال کے ، بڑی باقاعدگی سے ہوا۔ ایک دو دفعہ اسلام آباد چھوڑ کر بھی گیا ہوں لیکن پائوں نہیں جماسکا۔ کورونا کے بعد البتہ میں اپنی بستی کے بارے تشویش میں مبتلا ہوں۔ پورا ایک سال کورونا کے لائے چیلنج کے تنا ظر میں شہری اور دیہی زندگی کا تقابلی جائزہ لینے کا موقع ملا ہے۔ جو سوال میرے ذہن میں کلبلا تا رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب متوازن غذا اور حفضان صحت کورونا کی لائی وبا کا حل ہیں تو شہر میں رہنے کی کیا تک بنتی ہے؟ نعیم اللہ طفیل، علم انسانیات کے ماہر جو اسلام آباد میں اپنی تعلیم مکمل کرکے نجی ترقیاتی شعبے سے منسلک ہوکر ملتان شفٹ ہوگئے تھے، کورونا کی آمد سے پہلے ان سے کافی لمبی ملاقاتیں رہی تھیں۔ اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ نئے دور کا سب بڑا چیلنج بڑھتی آبادی کو متوازن غذا کی فرا ہمی ہے اور یہ کہ پرانے طور طریقوں پر استوار زراعت اس چیلنج کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کو ذہن میں رکھا جائے تو بستی والوں کے پاس وافر زمین ہے جو نہ صرف موجودہ بلکہ اگلی کئی نسلوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسکے باسی صحت مند خوراک سے محروم ہوچکے ہیں۔ گندم کے علاوہ کچھ بھی نہیں اگاتے ، درخت کاٹ دیے ہیں ، بچے ہسپتال میں پیدا ہورہے ہیں ،پردیسیوں کے بھیجے گئے پیسے بچوں اور بوڑھوں کی بیماریوں پر خرچ ہورہے ہیں۔ کالا یرقان اور شوگر کی بیماریاں عام ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے سے کسی اجتماعی حل کی توقع نہیں۔ برادری کا نظام ٹوٹ گیا ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، انصاف کے لیے کورٹ کچہری ہی بچ گئے ہیں جو ظاہر ہے مہنگا سودا ہے۔ انصاف ہی نہیں مل پاتا تو ترقی جیسے کام کے لیے کس نے مل جل کر بیٹھنا ہے۔ فی الحال جو جمہوری نظام نافذ ہے اس سے تو لوگ تقسیم ہی ہوئے ہیں۔ ترقی کا مطلب سڑکیں، بجلی ، سوئی گیس اور بنیادی مرکز صحت ہی رہ گئے ہیں۔ بھلے کا مطلب کسی بیمار کو ہسپتال لے جانا ہی بچ گیا ہے۔ جس گائوں کو میں نے چھوڑا تھا وہاں مائیں ،بچے ، بوڑھے صحت مند، نوجوان متحرک اورجوان خود دار تھے۔ مجھے اس بس کنواں اور اس کے گرد لگی سبزیاں اور باغ یا د ہیں۔ سڑک اور بجلی کے آنے پر پھیلی خوشی بھی یا د ہے اور کنواں پاٹے جانے پر برسوں محسوس کی جانیوالی افسردگی بھی۔ وہ دن بھی یا د ہیں جب چوری ہونے پر پوری برادری متحرک ہوجاتی تھی اور تب تک معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑتا تھا جب تک چور پکڑا نہیں جاتا تھا اور حقدار کو اس کا حق نہیں مل جا تا تھا۔ لیکن اب بستیاں تبدیل ہوگئی ہیں۔ سہولیات زندگی ہیں لیکن ان کی دستیبابی کے لیے لوگوں کی خود داری دائو پر لگ گئی ہے۔ کپا س ختم ہوئی ہے تو اس کی لائی خوشحالی بھی دھڑام سے زمین پر آن گری ہے۔ نہری پانی کم ہوا ہے، کا شتکاری کا انحصار ڈیزل پر ہے لیکن ا س پر ٹیکس پچھلی دو دہائیوں سے حکومتوں کی آمدن کا ذریعہ بنے ہوئے ہے۔ بیچ میں بینکوں نے قرضے دیے تو وہ زرعی خسارے کے نظر ہوگئے۔ میں اپنی بستی کیا گردو نواح کی ساری بستیاں غذائی قلت کا شکار ہیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ زیادہ گندم اگاکر اس بھوک کو مٹایا جاسکتا ہے۔ متوازن غذا کی دستیابی ہر خاندان کا اولین مسئلہ ہے، تعلیم اور کاروبار بعد میں آتے ہیں۔ جہاں تک گرمی کا تعلق ہے تو اب تک پتہ چل چکا ہے کہ کنکریٹ کی چھتیں اسے روک سکتی ہیں اور نہ ہی بجلی پر چلنے والے پنکھے۔ شجر کاری اور ماحول کو سامنے رکھ کر بنائے جانے والے گھر ہی اس کا حل ہیں۔