برصغیر کی تاریخِ تصوّف و حکمت اس امر پر شاہد ہے کہ ہر عہد کے سلاطین اور حکمران حضرت بابا فرید الدین مسعودِ گنج شکر رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری کی سعادت سے خود کو بہرہ مند کرتے رہے، اسی تسلسل میں گذشتہ شام ، پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد خاں بزدار بھی حضرت بابا صاحبؒ کے دربارِ اقدس پر حاضر تھے۔ صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور ، سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور ، ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب سمیت دینی ، روحانی، سیاسی اور سرکاری عمائدین بھی موجود تھے۔اس موقع پر ملک و ملت کی ترقی او روطن عزیز کے استحکام کے لیے خصوصی دعا ہوئی۔ "کوویڈ۔19 "کے سبب دنیا بھر میں زیارات اور مذہبی رسومات کو محدود کیا گیا ہے، جس کی بہت بڑی مثال ’’حج 2020 ‘‘کی ہے، جس میں امسال محض ایک ہزار خوش نصیب افراد کے حصّے میں یہ نیک ساعتیں آئیں۔ پاکپتن شریف میں حضرت بابا فرید الدین ؒ کے عرس مبارک کو، کورونا کے تناظر میں سرکاری ’’ایس او پیز‘‘کے سبب محدود کیا گیا ، جس کا بنیادی سبب انسانی جان کی حفاظت تھا، جس کی از خود دین میں بھی بہت زیادہ اہمیت ہے اور پھر اس کیساتھ ماحولیاتی صفائی ، پاکیزگی کو بھی ترجیح دی گئی ہے۔ حضرت بابا صاحبؒ کا عرس، جو کہ پندرہ روز تک جاری رہتا ہے ، اور اس کا نقطہ عروج ’’بہشتی دروازہ‘‘کی کشادگی 5تا 9محرام الحرام ہے، جس سے گزرنے کیلئے کم و بیش 2کلومیٹر لمبی قطار سرِ شام ہی آراستہ ہو جاتی ہے، اور ہجوم ایسا کہ بس… ، گذشتہ سال ان پانچ راتوں میں تقریباً 5لاکھ زائرین نے یہ سعادت حاصل کی ، کورونا کے سبب اس سال ’’بہشتی دروازہ ‘‘کھولنے کے ایام اور اوقات کو بھی محدود کیا گیا، جس کی عدالتِ عالیہ نے بھی اپنے فیصلے کے ذریعہ توثیق کی۔ زائرین کی آمد و رفت کا اندازہ صرف اس امرسے لگا لیں کہ صرف ایک ٹرین فرید ایکسپریس ، جو کہ کراچی سے لاہور آتی ہے، سے ڈیڑھ لاکھ زائرین پاکپتن کے لیے سفر کرتے ہیں، حضرت بابا صاحب کی خانقاہ پاکستان کے اندر سلسلہ چشتیہ کی سب سے بڑی درگاہ اور اس عظیم روحانی سلسلے کی اہم ترین اور بنیادی کڑی ہے، جس کے سبب برصغیر میں ایک منظم روحانی اور خانقاہی نظام کو نقطۂ کمال میسر آیا۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے آباؤاجداد کا تعلق کابل کے شاہی خاندان سے تھا، فرخ شاہ فرمانرواء کابل، کے دور میں، حضرت بابا صاحب کے دادا قاضی شعیب اپنے کنبے سمیت ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے ، جہاں سے قصور اور پھر کھتوال پہنچے، جہاں قاضی کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ کھتوال ۔۔۔۔ دریائے ستلج کے کنارے ملتان اور اجودھن کے درمیان واقع تھا، یہیں پر قاضی جمال الدین سلمان کے ہاں چھٹی صدی ہجری (571ھ) میں آپ کی ولادت ہوئی، یہیں سے آپ تحصیلِ علم کیلئے ملتان تشریف لے گئے ، اور قاضی منہاج الدین ترمذی ، جو اپنے عہد کی بہت جیّد اور معتبر ہستی تھے ، سے زانوئے تلمّذ طے کیا۔ اور یہیں ، آپ کی ملاقات حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ سے ایسے عالم میں ہوئی ،کہ جب آپ ’’کتاب النافع‘‘پڑھ رہے تھے،تو خواجہ قطب نے محبت آمیز نظروں سے سبق میں منہمک طالب علم کو دیکھا اورپوچھا کیا پڑھ رہے ہو۔ عرض کیا’’کتاب النافع‘‘۔ فرمایا اللہ اسے تمہارے لیے نفع مند بنائے، آپ کی نگاہِ کیمیا سے ہوگا، ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی، حکم ہوا پہلے علومِ ظاہری کی تکمیل کر لو، پھر دہلی آ جانا، پھر اہلِ دہلی نے دیکھا کہ ایک دراز قامت، سروِ رعنا نوجوان، عالمِ وارفتگی میں خواجہ قطب کی خانقاہ کے دروازے پر دست بستہ حاضر ہے ۔۔۔ آپؒ لرزتے قدموں کے ساتھ خواجہ قطب کے آستانے میں داخل ہوئے اور پھر سلوک و تصوّف کے اعلیٰ ترین مقام سَر کیے۔ خلافت و اجازت کی نعمتوں سے مزین ہو کر، خواجہ قطب کی بارگاہ سے رخصت ہوئے تو شیخ کامل نے محبت آمیز پیرائے میں ، دعاؤں کے ساتھ روانہ کیا، مصلّی خاص اور عصا عنایت فرمایا، پھر فرمایا تقدیر الہٰی یہی ہے، میرے سفرِ آخرت میں تم میرے ساتھ نہیںہو گے ، تمہاری امانتیں، سجادہ، خرقہ، نعلین مبارک اور دیگر تبرکات قاضی حمید الدین ناگوری کو دے دوں گا ،جو تم تک پہنچ جائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ۔۔۔ہمارا مقام۔۔۔ تمہارا مقام ہے۔ قطب العالم نے خصوصی توجہات اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے وصال کے بعد ، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ آپ کے مسند نشین اور جانشین مقرر ہوئے ۔ غیاث الدین بلبن آپ کا از حد عقیدت مند تھا، بعض روایات کے مطابق اس نے اپنی بیٹی شہزادی ہزیرہ بانو کو آپ کے عقد میںپیش کیا، دہلی میں خلقت کے انبوہ کثیر سے ، عبادت میں یکسوئی متاثر ہوئی، تو وہاں سے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا، قاضی حمید الدین ناگوری نے کہا کہ آپ یہاں سے کیسے جا سکتے ہیں ، قطب العالم نے آپ کو اپنا سجادہ نشین مقرر کیا ہے، آپ ؒ نے فرمایا میرے شیخ کا کرم ہر جگہ میرے ساتھ ہے، آپ ہانسی پہنچے ، لوگوں کا ہجوم تھمنے میں نہ آتا تھا، کچھ دنوں کے بعد آپ اجودھن، جو بعد میں آپ کے دم قدم سے پاکپتن بنا، وہاں تشریف فرما ہوئے، اسی پر کسی صوفی اور درویش نے کہا تھا کہ پاکستان تو اس دن ہی بن گیا تھا، جب حضرت بابا صاحب نے اجودھن کو پاکپتن بنایا تھا، اجودھن دریائے ستلج کے کنارے، قدیم شہر ، جو ملتان اور دہلی کی مرکزی شاہراہ پر واقع تھا، راجہ رام چندر کے خاندان سے ایک فرد جس کا نام ’’راجہ اجودھن‘‘تھا ، کے نام سے موسوم ہوا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب جلال الدین اکبر نے آپ کے مزار پر حاضری دی تو اس کا نام باقاعدہ ’’پاکپتن ‘‘رکھ دیا گیا۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی خانقاہ اپنے عہد کا سب سے بڑا علمی، دینی اور روحانی مرکز تھی ، جہاں دنیا بھر کی معروف اور معتبر ہستیاں حاضری کو اعزاز سمجھتی تھیں، مشہور سیّاح اور مؤرخ ابن بطوطہ جب دنیا کی سیاحت کے دوران ہندوستان پہنچا، تو اپنے شیخ سیّد برہان الدین کی نصیحت کے مطابق پاکپتن پہنچا تو اس وقت آپ ؒ دنیا سے پردہ فرما چکے تھے اور ان کے جانشین حضرت علاء الدین موج دریا مسندِ رشد و ہدایت پر جلوہ گر تھے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے سکھ مذہب کی مقدس کتاب ’’گرنتھ صاحب ‘‘میں 12اشلوک اور چار ’’شبہ‘‘حضرت بابا فرید الدینؒ کے نقل کیے ہیں، بابا گرونانک کا زمانہ اگرچہ بابا فرید سے تقریباً ڈھائی سو سال بعد کا ہے، لیکن بابا گرونانک کو حضرت بابا فرید سے از حد عقیدت رہی، بابا گرونانک ، جب پاکپتن حاضر ہوئے، تو آپؒ کے بارھویں سجادہ نشین شیخ ابراہیم فرید ثانی سے اس کی ملاقات ہوئی۔ حضرت بابا فرید کی آمد سے اس علاقے کی تقدیر بدل گئی، جہاں پر توہم پرستی ، شرک اور کفر کا دور دورہ تھا، آپ کی برکت سے وہ نورِ عرفان کی شمعیں روشن ہو گئیں ، جس سے خطّۂ پنجاب جگمگا اُٹھا۔ صوفیا اسلامی شریعت و طریقت کے امین اور فقرِ غیور کے علمبردار ہوتے ہیں، رواداری اور انسان دوستی کا جذبہ حضرت بابا صاحب کے افکار ، احوال اور کلام میں بطور خاص غالب نظر آتا ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں: فرید اجے تیں مارن مکیاں توں نہ ماریں گھم اپنے گھر جایئے پیر تنہاں دے چم یعنی اگر کوئی شخص آپ سے زیادتی کرتا ہے تو تم برداشت کرو اوراس کو بدلے میں مارنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو کہ وہ خود ہی پریشان ہو کر واپس چلا جائے۔ رکھی سکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی/فریدا ویکھ پرائی چوپڑی نہ ترساویں جی یعنی روکھی سوکھی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کر اور کسی دوسرے کی چوپڑی دیکھ کر اپنے آپ کو مت ترسا یعنی قناعت اختیار کر۔