نئی نسل کی ہر دل عزیز شاعرہ پروین شاکر نے ایک زمانے میں شاید کسی ذاتی تجربے ہی کی روشنی میں، ہر عہد میں زیست کو بد مزہ کرتیشاطرانہ رویوں اور دھونس دھاندلی کے پروردہ جابرانہ غلبے کو کتنی سہولت سے بیان کر دیا تھا: مَیں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا لیکن تاریخ کی کمر پہ کسی ہوئی اصل حقیقت یہی ہے کہ زمین کی کوکھ سے اُگا اور عام آدمی کا جینا حرام کر دینے والا جھوٹ ، عاقلوں کی خاموشی اور ناقلوں کی خردد فروشی کی بنا پر ہر زمانے میں، اقتدار کی ہِک پہ آہلنا ڈالے، طاقت کی تھاپ پہ وقت کے تمام فرعونوں کی معیت میں، معدے کی حرارت اور ننفسِ لوامہ کی شرارت کے ساتھ دیوانہ وار بھنگڑا ڈالتا رہا۔ مفاد پرستوں کا ایک بڑا طبقہ بھی ہمیشہ ان کے ساتھ محوِ رقص رہا۔دوسری جانب آسمان سے اُترا سچ دلائل و براہین اور شواہد و فوائد کی روشنی میں پھاوا ہو ہو کے، اپنی حقانیت، صلاحیت اور صالحیت کا یقین دلاتا رہا لیکن مراعات کی چھنا چھن میں کم ہی لوگوں کو اس کی صدا نے متاثر کیا۔ بقولِ شاعر: سچ کی گردن پہ جھوٹ بیٹھا ہے حق کا نعرہ بلند کون کرے؟ غالب نے اپنے حال کو ماضی کے پلڑے میں تولتے ہوئے کہا تھا: کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا لیکن حقیقت یہی ہے کہ جھوٹ آخرِ کار اپنی زمینی خدائی، اَن گنت خزانوں اور مصنوعی جنتوں سمیت،اصلی دوزخ میں جا گرا۔ ماضی کا ہرکارہ آج بھی ایڑیاں اٹھا اٹھا کے چِلّا رہا ہے کہ لوطؑ، صالح ؑ، شعیبؑ، ہودؑ وغیرہم نے سچ کی نصرت کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںچھوڑا تھا لیکن جھوٹ، کثرتِ زر کے زعم میں لواطت، جبر، ہیرا پھیری، بت پرستی اور اللہ کے فرستادوں کو جھٹلانے میں لگن سے مگن رہا۔ سچ صداقت و امانت کا ارضی و سماوی تصدیق نامہ ہونے کے باوجود ہجرت اور مسلط کی گئی جنگوں پہ مجبور ہوا اور جھوٹ طاقت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جہل پھیلاتے پھیلاتے واصلِ جہنم ہوا۔ کون نہیں جانتا کہ سچ، قبیلے سمیت کوفہ و کربلا کی بھینٹ چڑھ گیا اور جھوٹ ہاتھ مَلتے مَلتے نفرتوں کے کُوڑے دان کی نذر ہوا۔ اسی طرح تاریخ کی منڈیر سے زینہ زینہ اترتے جائیں اور دیکھتے جائیں کہ کہیںسچ ہنس کے سُولی چڑھ گیا اور جھوٹ جواز مینوفیکچر کرتا رہا۔ سچ نے اپنی مقبولیت کے جرم میں زہر کا پیالہ پی لیا اور جھوٹ اپنی مکاری کے سنگھاسن پہ کھڑا اِتراتا، دندناتا اور بالآخر پچھتاتا رہا۔ لیاقت علی عاصم نے سچ اور جھوٹ کے اس معرکے کو دیکھیے کیسا تجزیاتی فریم فراہم کیا ہے: ورنہ سقراط مر گیا ہوتا اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں پھر ذرا اس اسلامی جمہوری مملکت پہ بھی ایک نظر ڈال لیں کہ جہاں ابتدا ہی میںسچ کو صحت افزائی کے نام پر نکرے لگا دیا گیا اور جھوٹ اقتدار کی میوزیکل چیئر پہ جھوٹے لیتا رہا۔ سچ لیاقت باغ میں مارا گیا اور جھوٹ کرائے کے قاتل کی اوٹ میں قہقہے لگاتا رہا۔ سچ ڈھاکا کی گلیوں میں منمناتا رہا اور جھوٹ، اُدھر تم، اِدھر ہم کی مستی میں ہلارے لیتا رہا۔ ناصر کاظمی پوچھتا ہی رہ گیا: وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے؟ وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے؟ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟ عہدِ حاضر کا سچ یہی ہے کہ ہم محسن کُش قوم ہیں۔ پہلے کسی مخلص لیڈر کا خواب دیکھتے ہیں۔ جب طویل آہ و بکا کے بعد قدرت کوئی مردِ حُر عطا کرتی ہے، تو ہم اس کی رسوائی اور جگ ہنسائی کے منصوبے بنانے لگتے ہیں۔ وہ قدم جمانے کے لیے تگ و دَو کرتا ہے تو اس کے نیچے سے زمین کھینچ لیتے ہیں۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور جھوٹی اناؤں کی تسکین کی خاطر غداروں، غاصبوں کی پنڈلیاں دبانے لگتے ہیں۔ عمران خان کی شکل میں شاید قدرت نے ہمیں آخری موقع دیا ہے۔ ایسا لیڈر، جسے لوگ سپورٹ نہیں، اُس سے عشق کرتے ہیں۔ اس کی شخصیت، اس کی مقبولیت، اس کا گرینجر، اس کا عشقِ رسولؐ، اُس کی اصول پسندی، اُس کی حب الوطنی، اُس کی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ادا نے مخالفین اور حاسدوں کو چھیچھڑے بنا کے رکھ دیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے دعوے دارجتھے، ماچس کی ڈبیا میں بند ہو گئے اور وہیں سے تیلی لگانے کا کام شروع کر دیا۔ ہر مرض کے علاج کے لیے باہر بیٹھے ڈبہ پیروں سے رجوع کرتے ہیں۔ یہ مال بنانے آتے تھے، وہ قوم بنانے آیا ہے۔ وہ صرف یہی کہتا ہے کہ جن پیسوں کو ہم بطور قرض لینے کے لیے مرے جا رہے ہیں، وہ ملکی خزانے کو سیندھ لگانے والے ایک ایک زعیم کی کھبی ڈَب سے برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس کا یہ بھی موقف ہے کہ جس ڈیل کے تحت حکومت حاصل کی گئی ہے، کہیں ملکی سلامتی بھی اس کی اگلی شِق نہ ہو؟ فیض نے: جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں جیسا شعر لکھ کے جو شہرت پائی تھی، اِس نے اُس کی ایسی عملی تصویر پیش کر دی کہ شعر کی زبانی لطافت، تاثیر کی عملی کسک میں ڈھل گئی۔ افسوس! آج ہم ایسی نادر و نایاب ہستی کو ضائع کرنے پہ کمربستہ ہیں۔ ہماری سیاسی منڈلیوں میں ایسی ایسی مخلوق موجود ہے، جنھیں کوئی معقول ملک پاگل خانے میں جگہ دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ آج ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں، جہاں جھوٹ، فراڈ سے اکٹھی کی گئی دولت ہنہناتی ہے، عزت شرماتی ہے۔ مکروہ مقاصد والی وڈیوز جیت گئیں، وقار منھ چھپائے پھرتا ہے۔ رزقِ حلال، لُوٹ مار کے چرنوں میں بیٹھا ہے۔ عدل، گم شدہ بچے کی مانند در بدر ہے۔ تعصب کا چورن بیچنے والے علما کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ تیس سالوں کی توانائیوں کو ڈکار جانے والے، تین سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ جھوٹ کے اعتماد کے مقابل سچ نمو جھانا ہے۔ لالہ بسمل کی تحقیق و تحقیر کے خمیر میں گندھی تازہ تحریر ’’ سچ مقابل کھچ‘‘ حساس لوگوں کے ضمیروں کو جڑوں تک جھنجوڑنے کے لیے کافی ہے، جس کا لُبِ لباب یہی ہے کہ ہم سے یہ موقع بھی ضائع ہوگیا تو مدتوں گلیوں گلیوں گاتے پھریں گے: آیا تھا ایک دیو، بونوں کے دیس میں انسان ڈھونڈتا پھرا، کھلونوں کے دیس میں