چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ کوئی ڈیل‘ ڈھیل یا این آر او نہیں دیا جائے گا۔ اب ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے لہٰذا موجودہ حکومت کے دور میں ہونے والی کرپشن کو بھی نیب دیکھے گا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ حکمران جماعت میں ہے تو بری الذمہ ہے۔ چیئرمین نیب نے ایک افسوسناک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ کروڑوں کے بجٹ کے باوجود بچہ کتے کے کاٹنے سے ماں کی گود میں مر جاتا ہے‘‘۔ چیئرمین نیب کی گفتگو اس قومی سوال کے گرد گھومتی ہے جو ان دنوں پوری قوم کے سامنے ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر معروف رہا ہے جہاں حکمران اشرافیہ عوامی خزانے کو بیدردی سے لوٹتی ہے۔ اہم عہدوں پر رشتے داروں اور دوستوں کو تعینات کرتی ہے۔ غریب عوام کے سیاسی اعتبار کی ہڈیوں سے منافع کھینچ کر نکالتی ہے اور دوبئی‘ لندن ‘ پیرس‘ سوئٹزر لینڈ‘ پانامہ‘ آسٹریلیا اور امریکہ میں اس لوٹی ہوئی دولت سے املاک بناتی ہے۔ سیاسی نظام موجود ہے۔ انتظامی مشینری کام کر رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہیں۔ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود پورا نظام مخصوص بااثر شخصیات کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ عوام جب کسی ایسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ عوام جب کسی ایسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں دو طرح کے نظام کام کر رہے ہیں۔ ایک نظام عام آدمی کے معاملات کا ذمہ دار ہے۔ یہ نظام بے رحم اور غیر تسلی بخش ہے۔ دوسرا اپنی ہئیت میں مستحکم اور حکمران اشرافیہ کے ہر مسئلے کو لمحوں میں حل کرنے کے لئے مستعد دکھائی دیتا ہے۔ عوام اور حکمران اشرافیہ کے لئے یہ دو طرح کے الگ الگ احساسات ہی اس سوال کو ابھارتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ کوئی ڈیل ‘ ڈھیل یا این آر او نہیں دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں عوام کا قومی اداروں پر شکوک کا اظہار اگرچہ اداروں کے موجودہ سربراہوں کے متعلق نہیں مگر سابق ادوار میں ایسے کئی واقعات ہیں جنہوں نے عوامی اعتماد کو متزلزل کیا۔ میاں نواز شریف کو 12اکتوبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے ہٹایا تو ان کے ہٹانے کی وجوہات میں بتایا گیا کہ ملک کرپشن کی دلدل میں دھنس رہا تھا۔ بدعنوانی کے کئی سکینڈلز اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی بطور جرم ثابت بھی ہوئے مگر یہ جانے کون سی مصلحت پسندی تھی کہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل و عیال کو ایک دوست ملک کے کہنے پر باہر بھیج دیا گیا۔ باہر جا کر کچھ برس معاہدے کے مطابق شریف خاندان خاموش رہا۔ ان کے ساتھی ان سے مایوس ہو کر دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ کچھ نے پارٹی کے نئے دھڑے بنا لئے۔ اس وقت سمجھا جاتا تھا کہ میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم اسٹیبلشمنٹ سے بارگیننگ کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ مفروضہ اس وقت سچ معلوم ہونے لگا جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کی ٹیم سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ جنرل پرویز مشرف کو کچھ معاملات پر دونوں سیاسی جماعتوں کا تعاون درکار تھا اس تعاون کے بدلے وہ قومی مفاہمت کے معاہدے این آر او پر رضا مند ہو گئے۔ نواز شریف، بے نظیر بھٹو‘ ان دونوں کے درجنوں ساتھیوں اور دوسری جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنمائوں نے اس این آر او کے طفیل قتل‘ بھتہ خوری‘ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے مقدمات سے نجات حاصل کر لی۔ این آر او اس دن سے ہر بااثر قانون شکن کا پسندیدہ عمل جبکہ قانون پسندافراد کی نظر میں معاشرے کو کرپشن کے حوالے کرنے اور طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کی وجہ ہے۔ این آر او وہ بھیانک دستاویز ہے جس نے سیاسی و انتظامی اداروں کی ساکھ کو تباہ کیا۔ حالیہ دنوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی سنگین بیماری کا علاج بیرون ملک سے کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے متعدد افراد پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کئی مقدمات زیر تفتیش اور زیر سماعت ہیں۔ ان کو دی گئی اس رعایت پر ان کی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے جس طرح کا ردعمل دیا ہے وہ خاصا معنی خیز ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ سارا معاملہ شہباز شریف کی معاملہ فہمی اور مختلف حلقوں سے رابطوں کی وجہ سے نواز شریف کے حق میں ہوا۔ اگر عدالت عالیہ چاہے تو ن لیگ کے رہنمائوں کے ایسے بیانات پر توہین عدالت کے قانون کے تحت کارروائی کا حق استعمال کر سکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ چیئرمین نیب اپنے ادارے کی موجودہ اور آئندہ ساکھ کو درست رکھنے کے آرزو مند ہیں۔ یہ بات عین موجب انصاف ہے کہ گزشتہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت میں شامل افراد کی کرپشن کے ثبوت ملیں تو متعلقہ ادارے ذمہ دار شخصیت کے خلاف کارروائی میں آزاد ہونے چاہئیں۔ اپوزیشن کو شکایت ہے کہ نیب حکومت میں شامل بعض اہم شخصیات کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت بنے ابھی چودہ پندرہ ماہ ہوئے ہیں۔ ان مہینوں میں حکومتی شخصیات کے متعلق ایسی شکایات رپورٹ نہیں ہوئیں جن پر نیب سرگرم ہوتا البتہ ماضی کے کچھ معاملات کی الگ بات ہے۔ اپوزیشن ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہے جو حکومت کو غیر مستحکم کرے۔ اداروں کو دبائو میں لا کر ایسے فیصلے کرانا بھی اپوزیشن کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے کہ اتحادی اس سے ناراض ہو کر الگ ہو جائیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ احتساب کا عمل بلا امتیاز ہونا چاہیے لیکن اپوزیشن کے دبائو سے اداروں کو آزاد رہنے اور ان کے عزائم سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ معاشی استحکام اس کا ہاتھ پکڑ کر ابھرنے لگا ہے۔ ایسی صورت میں احتساب کے عمل کو ہر پہلو سے دیکھنا ضروری ہے۔