چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’چند خاندان ملکی دولت لوٹ کر مالک بن گئے‘ ان سے پیسہ واپس لیں گے‘‘۔ چیئرمین نیب نے شرکاء کو بتایا کہ جن لوگوں نے قومی دولت لوٹی ہے انہیں حساب دینا ہو گا۔ وفاداری صرف پاکستان سے ہے۔ ملکی مالی حالات بہتر نہیں مگر بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ انہوں نے بطور خاص کہا کہ ریاست مدینہ کے لئے پہلے خود کو بدلیں۔ چیئرمین نیب اکثر تعلیمی اداروں میں تشریف لے جاتے ہیں۔ ان کے ماتحت افسران بھی سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے طلباء میں بدعنوانی کے خلاف آگاہی بانٹنے کے لئے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ سیمینار اور تقریری مقابلوں کے توسط سے نوجوان نسل میں یہ احساس بیدار کیا جا رہا ہے کہ ہر نوع کی قدرتی نعمتوں اور ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان محتاج ‘ افلاس زدہ اور مقروض کیوں ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے مذکورہ بالا خیالات کا اظہار ایسی ہی ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں پیداوار کا حقیقی عمل پروان نہیں چڑھ سکا۔ سابق حکومتوں کے پاس ایسا لائحہ عمل ہی نہ تھا کہ جس کے نتیجے میں قومی آمدنی پیدا ہوتی۔ کارخانوں اور فیکٹریوں پر تالے لگے رہے۔ کھیتوں سے فی ایکڑ پیداوار بڑھنے کی بجائے سکڑتی گئی۔ آبادی میں اضافہ ایک الگ مسئلہ بن کر ابھرا۔ چادر سر ڈھانپنے سے کم ہوئی‘ سر ڈھانپا تو پائوں باہر نکل جاتے۔ بدانتظامی اور سیاسی نااہلی کو چھپانے کا یہی آسان حل تھا کہ غیر ملکی اداروں سے قرض حاصل کیا جائے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے نقد رقم لے کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دکھایا جاتا۔ اسی رقم سے روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کم رکھا جاتا۔ نقصان یہ ہوتا کہ جو ڈالر آپ نے 108روپے میں لیا اسے 100روپے میں مارکیٹ میں پھینکتے رہے تاکہ ڈالر کی قلت نہ رہے۔ یوں دوہرا نقصان کیا۔قرض پر اٹھنے والا سود اور کم قیمت میں ڈالر مارکیٹ میں لانا ۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن کے سابق دور حکومت میں قرضوں کو ایک کاروبار کی حیثیت دیدی گئی۔ ان ڈالروں کا کچھ حصہ ایک گورکھ دھندے سے گزر کر حکمرانوں کے اکائونٹ میں منتقل ہو جاتا۔ اسی طرح کی رقم سے دوبئی‘ لندن ‘ پیرس اور پانامہ میں اثاثے بنائے گئے۔ قوم پانچ برسوں میں 35ارب ڈالر کی مقروض ہو گئی جبکہ حکمران اور ان کی آل اولاد اچانک دھن برسنے سے اربوں ڈالر کے کاروبار کے مالک ہو گئے۔ ان کے پاس اگر کسی خاص کاروبار کرنے سے رقم آئی تو اس کاروبار میں آنے والی تیزی سے ملک کے دوسرے نوجوان کیوں مستفید نہ ہو سکے۔ نیب کی حالیہ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سرکاری رہائش گاہ پر کئی طرح کے کاروباری معاملے طے ہوتے اور پھر جمع ہونے والی رقم سرکاری گاڑیوں پر منزل تک پہنچائی جاتی۔ یہ درست ہے کہ پاکستانی سماج کی عمومی حالت کو دیکھتے ہوئے ہمیں احتساب کے اداروں کی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کے ریکارڈ میں جعلسازی ہو رہی ہے۔ چھوٹے ملازمین دفتر حاضر نہیں ہوتے مگر ان کی حاضریاں لگی ہوتی ہیں۔ افسر کسی دورے پر نہیں جاتے مگر ریکارڈ میں وہ کسی دورے پر ہوتے ہیں اور واپسی پر ٹی اے ڈی اے کا بھاری بھرکم بل جمع کرا دیتے ہیں‘ ہر جگہ ملاوٹ اور دھوکہ دہی ہے۔ حج اور عمرے کے لئے جانے کے آرزو مندوں تک کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کو قابو میں رکھنے کے لئے صرف پولیس جیسے اداروں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بدعنوانی میں حصہ دار بن چکے ہیں۔ نئے ادارے اور نئے قوانین ہماری ضرورت ہیں۔ ہمارے ہاں احتساب کا عمل حکومتوں کی سیاسی پالیسیوں سے ہم آہنگ رہا ہے۔ کسی حکومت نے چاہا کہ اس کے مخالفین کا منہ بند کر دیا جائے تو نیب کو متحرک کر دیا گیا۔ پولیس اور ایف آئی اے تو پہلے سے بدنام تھے۔ یہ وہی ادارے ہیں جنہوں نے وزیر داخلہ چودھری شجاعت کے منع کرنے کے باوجود صرف میاں نواز شریف کی خوئے انتقام کی تسکین کی خاطر آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کے جھوٹے مقدمات درج کئے۔ پھر سیف الرحمان کی سربراہی میں نیب جو کچھ کرتا رہا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ان چیزوں نے ہر بدعنوان کو موقع دیا کہ وہ سیاست کو بطور ڈھال استعمال کرے۔ سیاستدان بن کر ہر کام کرتے رہے جونہی ادارے حرکت میں آئیںان کی سابق کوتاہیوں اور بری ساکھ کا حوالہ دے کر سیاسی انتقام کا شور مچا دے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے 2006ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات نہ بنانے کا وعدہ پورا کر کے جمہوریت کا تحفظ کیا۔ دونوں تجربہ کار جماعتیں یہ امر فراموش کر بیٹھی ہیں کہ جمہوریت صرف عوامی نمائندے منتخب کرنے کا عمل نہیں بلکہ ان نمائندوں کی سرگرمیوں کو شفاف رکھنے اور ان کو ووٹروں کے سامنے جوابدہ بنانا ہوتا ہے۔ یہاں عجیب پیشرفت ہوئی کہ سیاستدانوں نے منظم انداز میں کہنا شروع کر دیا کہ آئینی اور قانونی اصولوں پر قائم عدالتی نظام کی بجائے سیاستدان صرف عوام کی عدالت کو جوابدہ ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنی تعیناتی کے بعد سے کوشش کی ہے کہ ان کے ادارے پر ماضی میں جو الزامات لگتے رہے وہ ان کا داغ صاف کر سکیں اس لئے انہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ ریاست مدینہ کے لئے پہلے حکمران خود کو بدلیں۔احتساب بلا امتیاز ہو گا تو معاشرے کا استحکام برقرار رہ سکے گا۔