پانچ برس پاکستان اور گیارہ برس سندھ میں حکومت کرنے کے بعد پیپلز پارٹی نے عوام کی کتنی خدمت کی؟ اس کا اصل جواب آپ کو لاڑکانہ کے وہ راستے دینگے جن پر گٹروں کا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ لاڑکانہ شہر سے جو راستے نکلتے ہیں ان راستوں میں ایک راستہ ذوالفقار علی بھٹو کے گاؤںنوڈیرو کی طرف بھی جاتا ہے۔ اس نوڈیرو کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بچوں میں جو خاندانی ملکیت بانٹی تھی؛ اس میں نوڈیرو کا بنگلہ بینظیر کے حصہ میں آیا تھا۔ اب آصف زرداری یا ان کا بیٹا بلاول جب بھی لاڑکانہ جاتے ہیں ؛ان کا قیام نوڈیرو والے بنگلے میں ہوتا ہے۔ اس بہت بڑے بنگلے میں پارٹی کے اہم اجلاس ہوتے ہیں۔ پارٹی کے بڑے رہنما اس بنگلے میں قیام پزیر ہوتے ہیں۔ یہ بنگلہ قدیم اور جدید فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ مگر اس بنگلے سے باہر غریب لوگوں کے کچے مکان ہیں۔ وہ لوگ بھٹو اسٹیٹ کی زمینوں پر پورا دن شدید گرمیوںمیں کام کرتے ہیں مگر انہیں اب تک روٹی؛ کپڑے اور مکان کا حق بھی نہیں مل سکا ہے۔وہ لوگ جو کبھی بینظیر کی حمایت میں نعرے لگاتے تھے وہ لوگ اب بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی کسان ہیں۔ وہ نہ صرف بلاول بلکہ ان کی آنٹی فریال کو بھی ووٹ دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے نسل در نسل اپنے وڈیروں کی خدمت کی ہے۔ مگر ان کو بدلے میں کیا ملا ہے؟ یہ سوال اس وقت سنگین نوعیت اختیار کر لیتا ہے جب عالمی میڈیا میں اس خبر کا دھماکہ ہوتا ہے کہ ’’نوڈیرو میں 13 بچے ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہیں‘‘ اب تو ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جن لوگوںکے دل میں عوام کے لیے محبت اور خدا سے خوف ہے؛ ان لوگوں کی اس خبر نے چیخیں نکال دی ہیں مگر بلاول ہاؤس اس بارے میں خاموش ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا تعارف کرانے والے پیپلز پارٹی کے حامی کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد جیسا نہیں ہے۔ وہ اپنی والدہ پر گیا ہے۔ اس کی تربیت بھی والدہ کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ اس نے بیرون ملک اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آکسفورڈ نے بینظیر بھٹو کے بیٹے کو یہ سکھایا ہے کہ وہ ایک کرپٹ اور نااہل حکومت کی وکالت کرے۔ میڈیا اور سیاست کے درمیان بسنے والے پیپلز پارٹی کے حامی افراد کا یہ موقف بھی ہے کہ سندھ حکومت کے سارے معاملات بلاول خود دیکھتے ہیں۔ اگر بلاول سندھ حکومت کو چلانے والے ہیں تو پھر سندھ کی حالت ایسی کیوں ہے؟ بلاول کے بارے میں اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا کہ اس پاکستان اور سندھ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ عام لوگ کس عذاب میں مبتلا ہیں؟ اس کے گرد خوشامد کرنے والوں کا ایک مضبوط گھیرا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو وہ چلا رہا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ پیپلز پارٹی کا سرکل بلاول کو چلا رہا ہے۔ اگر بلاول احتساب میں یقین رکھتے تو نوڈیرو سے آنے والی اس خبر کے بعد وزیر صحت کی چھٹی کرائی جاتی مگر اب تک بلاول بھٹو زرداری نے اپنے وزیر اعلی سے یہ بھی نہیں کہا کہ ’’اس معاملے پر ماہر افراد کے زیر نگرانی انکوائری کرائی جائے‘‘ بلاول اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ سندھ میں وزارت صحت اس کی دوسری پھوپھی عذرا پیچوؤ کے پاس ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ پر گیارہ برس حکومت کی ہے ۔ ان گیارہ برسوں کے دوران لوگوں کو صرف نعروں پر نچوایا گیا ہے۔ کبھی ٹرین مارچ کا ڈرامہ کیا جاتا ہے اور کبھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دھمکی دی جاتی ہے۔ جب بلاول بھٹو زرداری سے غیر ملکی صحافی گیارہ برس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھتے ہیں تب وہ کہتا ہے کہ ہم نے صحت کے شعبے میں بڑا کام کیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں دل کے ہسپتالوں کی مثال پیش کرتا ہے۔ مگر سب سے خطرناک مرض تو ایڈز کا ہے ۔ اس مرض میں جب نوڈیرو کے معصوم بچے مبتلا ہیں تو پھر صحت کے شعبے میں سندھ کی خدمت کی ساری پول خود بخود کھل جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی اپنے منشور میں بڑے فخر کے ساتھ ’’روٹی ؛ کپڑا اور مکان‘‘ کے الفاظ لکھتی ہے۔ گذشتہ گیارہ برسوں کے دوراں سندھ میں عوام کو روٹی؛کپڑا اور مکان تو نہیں ملا البتہ ان سے وہ زیر زمین صاف پانی بھی چھن گیا جو وہ برسوں سے پیتے آئے ہیں۔ مگر بلاول بھٹو زرداری کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ کیوں کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں میزبانوں کے ٹیبل پر موجود منرل واٹر بھی نہیں پیتا۔ اس کی ٹیم اس کا امپورٹیڈ پانی ساتھ لیکر چلتی ہے۔ جس لیڈر نے اپنی دھرتی کا پانی بھی نہ چکھا ہو وہ اس دھرتی کے درد کو کس طرح سمجھ سکتا ہے؟وہ لیڈر جو اپنی بلٹ پروف گاڑی میں اپنے کتوں کے ساتھ سفر کرتا ہے اس کو کیا معلوم کہ نوڈیرو کے کچے مکانوں میں رہنے والے لوگ کیسی زندگی جیتے ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری جیسے لیڈر اپنے کسانوں کی غمی اور خوشی میں شریک ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ صرف اس دولت کے مزے لوٹتے ہیں جو دولت ان کسانوں کے پسینے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کسان جن کے بچے ایچ آئی وی ایڈز جیسے خطرناک مرض کا شکار ہیں۔ زرداری کے کنٹرول میں بھٹو اسٹیٹ کے ان کسانوں کو نہ تو مالکوں سے مدد ملتی ہے اور نہ حکومت سندھ سے انہیں کوئی پیکیج حاصل ہے۔ وہ نہ صرف غربت بلکہ زرداری کی سیاسی زنجیروں میں بھی قید ہیں۔ انہیں اتنی آزادی بھی نہیں کہ وہ تحریک انصاف کی طرف سے جاری ہونے والا صحت کارڈ حاصل کر سکیں۔ کیوں کہ وہ زرداری کے کسان ہیں۔ وہ آزاد انسان نہیں ہیں۔ ان کے ہاتھ صرف کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ہیں۔ وہ ان ہاتھوں سے اپنا حق نہیں لے سکتے۔ اگر وہ حق لے سکتے تو ان کے بچے ایڈز جیسے مرض میں مبتلا کیوں ہوتے؟ اگر وہ ایڈز کے مرض میں کسی بھی سبب مبتلا ہو بھی گئے ہیں تو ان کے مناسب علاج کے بارے میں اقدامات اٹھائے جاتے۔ وہ غریب کسان ہیں۔ وہ شرجیل میمن نہیں کہ ساوتھ سٹی ہسپتال میں علاج کرائیں۔ ایک طرف کرپشن کے مقدمات میں گرفتار شرجیل میمن جیل کی سختیوں سے بچنے کے لیے صوبے کے مہنگی ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اور چھاپہ پڑنے کی صورت میں ان کے کمرے میں موجود شراب فوری طور پر شہد میں تبدیل ہو جاتی ہے اور دوسری طرف نوڈیرو کے غریب لوگوں کے بچے ایڈز میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں بلاول برائے نام تشویش کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بلاول بھٹو زرداری کی اردو بہتر ہوگئی ہے اور اس کی بول چال میں روانی بھی آگئی ہے ۔ اب وہ صرف نوٹس پر نہیں چلتا۔ اب وہ خود بھی بات چیت کرلیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کی یہ صلاحیت صرف اپنے خاندان کے لیے کیوں ہے؟ وہ پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تو بہت بولتا ہے۔ مگر وہ سندھ کے درد بیان کیوں نہیں کرتا۔ وہ اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتا کہ ان کی حکومت میں لاڑکانہ کو لوٹا گیا ہے۔ آج وہ قومی اسمبلی میں تقریر کرتا ہے مگر جن کے ووٹوں کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچا ہے ان لوگوں کے بارے میں اس کی زبان خاموش کیوں ہے؟ اس کے پاس اس سوال کا جواب کیوں نہیں ہے کہ نوڈیرو کے معصوم بچوں کی اتنی بڑی تعداد ایڈز میں کیسے مبتلا ہوگئی؟ وہ بچے جن میں کئی بچے تو چند ماہ کے ہیں۔ ان معصوم فرشتوں کا قصور کیا تھا؟ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے وضاحت کیوں نہیںآتی؟ اس بارے میں بلاول ہاؤس کیوں خاموش ہے؟