معزز قارئین!کوئی زیادہ پرانی بات نہیں‘پاکستان پیپلز پارٹی کے موروثی چیئرمین بلاول زرداری جن کے نام میں ’’بھٹو‘‘ کا اضافہ یا ذرا سی ترمیم کی کامیاب کوشش سے آصف زرداری اپنے لخت جگر کو بھٹو ثانی بنانے میں بہت حد تک کامیاب ٹھہرے ہیں‘جنوبی پنجاب سے مختصر دورے پر تشریف لائے تھے۔ میثاق جمہوریت کے ثمرات سمیٹنے کی باری میاں نواز شریف کی تھی۔مگر بلاول زرداری نے دھاندلی کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا۔دورے سے بھی مختصر جیالوں کے اجتماع سے خطاب میں کراچی سے خیبر تک مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کو نادیدہ ہاتھوں کا کرشمہ قرار دیتے الزامات کی بوجھاڑ کر دی اور اپنے نانا اور والدہ کے انداز تخاطب کی نقل کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی بقاء کے لئے نتائج تسلیم کئے ہیں!مرسوں مرسوں پنجاب نہ ڈیسوں۔ نعرہ کی گونج اسی دن سنائی دی جس پر سنجیدہ طبقہ زیر لب مسکرا دیا ۔آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول زرداری کو آئندہ وزیر اعظم پاکستان کی کرسی پر براجمان دیکھنے کی خوش فہمی اور منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اسی لئے اس دورہ میں جہاں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے دونوں وزرائے اعظم اپنے حصار میں کئے ہوئے تھے وہیں ضعیف عورتیں ان کی بلائیں لیتی بھی دیکھی گئیں۔ یہ جمہوریت کا بھی حسن ہے کہ یوسف رضا گیلانی وطن عزیز کی تاریخ کے طویل ترین اور راجہ پرویز اشرف مختصر ترین دور کے وزیراعظم بلاول زرداری کی رونمائی کیلئے جلوہ افروز ہوئے۔ بلاول زرداری کی تقریر روٹی کپڑا اور مکان سے شروع ہو کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ختم ہو گئی جیسے سامعین کو معلوم نہیں تھا کہ اوّل الذکر کسی تلاطم خیز انجام سے دوچار ہوا اور موخر الذکر پروگرام کے اربوں روپے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر کہاں کہاں تقسیم ہوئے!۔ آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کسی عقل کل کو یہ شائبہ بھی نہیں ہو گا کہ محض ایک دہائی سے بھی قبل بلاول زرداری کو میاں شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھالنا ہو گا۔معلوم نہیں ان کے وزارت عظمیٰ کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں یا ہنوز امریکی دست شفقت کی امید باقی ہے۔ جزوقتی وزیر اعظم شہباز شریف انہیں اپنے وفد کے ہمراہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دورے پر اپنی اولین فرصت میں لے جانا نہیں بھولے جس کا مریم صفدر کو ضرور قلق ہو گا۔کاش وہ قومی اسمبلی میں موجود ہوتیں یا نااہل نا ہوئی ہوتیں۔بہرحال اب وقت کا پنچھی اڑ چکا ہے۔گزشتہ ماہ کے وسط میں بلاول زرداری کاسی این این پر انٹرویو کروایا گیا۔پروگرام کی میزبان ’’ہیکی انڈرسن‘‘ کے موروثی سیاست کے سوال پر بلاول زرداری چیں بہ چیں ہی نہیںہوئے بلکہ سوال گندم جواب چنا کی کیفیت سے بھی دوچار ہوئے ۔ امریکہ میں مقیم تارکین وطن کو بلاول زرداری کی آمد کی درست اطلاع نہیں ملی یا عمداً خفیہ رکھی گئی ورنہ سفارت خانہ کے باہر استقبال جیسی مصیبت سے ایئر پورٹ پر بھی واسطہ پڑ سکتا تھا۔ ابتداء میں بلاول زرداری نے مختلف مواقع پر گفتگو میں سنجیدگی کا مظاہرہ تو کیا لیکن موسم اور خوراک کی کمی کے حوالے سے سندھ کارڈ استعمال کرنا ضروری سمجھا ورنہ صوبہ سندھ سے ملحقہ بلوچستان اور پنجاب کے اضلاع میں بھی قیامت خیز گرمی ہوتی ہے۔پاکستان کی یاد انہیں وزیر خارجہ نے دلائی ورنہ ان کے اسباق کے ذہن پر کسی اتالیق کے گہرے اثرات بچپن سے مرتب ہو چکے ہیں۔اپنے ہم منصب سے ملاقات کی رسمی تصویر میں وہ امریکی پرچم اور انتونی بلنکن پاکستانی جھنڈے کے سائے میں نظر آتے ہیں اسے پروٹوکول غلطی سمجھ کر نظر انداز بھی کروں تو جھکی نظریں ‘ بندھے ہاتھ کی ادا سے تعبیر کرنے والوں کی نظر نہیں چوکی۔ بلاول زرداری کے دورہ امریکہ کو بنظر غائر دیکھا جائے تو ’’امریکی مداخلت اور سازش کے نتیجہ میں حکومتی تبدیلی کے تناظر میں پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں رخنہ فطری عمل ہے۔یہی امریکہ کی خواہش تھی۔ امریکی یقین دہانیوں کے تذکرہ سے قبل وزارت خارجہ کی پھرتیوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔روس یوکرین قضیہ افغانستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہمیشہ سے جاری جارحانہ اور ششدر رویے پر پاکستانی نقطہ نظر بلاول زرداری کی ذاتی نہیں قومی رائے ہے‘ عمران خان کے روسی دورہ کا دفاع کی توقع کم از کم بلاول زرداری سے عبث تھی۔مقام شکر ہے وزارت خارجہ نے مسئلہ کی ضرورت کے تحت ہی سہی اخلاقی جواز فراہم ضرور کیا۔امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن ہوں یا نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو دونوں بلاول زرداری سے زیادہ گھاگ ہیں۔ جن کا تذکرہ پاکستان ہی نہیں عالمی ذرائع ابلاغ میں تواتر سے ہو رہا ہے۔بالخصوص ڈونلڈ لو کی ملاقات کو اجاگر نہ کرنے کا سبب ان کا حکومت کی تبدیلی میں کردار ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں وزیر خارجہ کے کامیاب دورہ امریکہ کی بحث شروع ہوا چاہتی ہے۔ راقم کا بے لاگ تبصرہ یہی کہ یہ دورہ امریکی آقائوں کی خواہش پر کیا گیا اور رسمی دعوئوں کے علاوہ شاید الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔وزیر خارجہ نے اپنے ذہین و فطین ہونے کا ثبوت اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی جیسے الفاظ بزبان انگریزی ادا کر کے دیا۔ عمران خان کی حکومت نے اسلامو فوبیا کے خلاف باقاعد تحریک کے ذریعے 15مارچ کو اسلامو فوبیا سے نبٹنے کا عالمی دن‘ اقوام عالم سے منظور کروایا تھا جسے یک جنبش لب نو آموز اور ناتجربہ کار وزیر خارجہ نے زک پہنچائی۔اسی لئے وزارت خارجہ کو یہ وضاحت بھی کرنی پڑی کہ پاکستانی پالیسی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کسی مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ بلاول زرداری وزیر خارجہ سے زیادہ امریکی روبوٹ کی طرح نظر آئے ۔عمران خان دورہ روس اور صدر پوتن کی یوکرین پر یلغار میں مماثلت تو قرین قیاس نہیں تھی۔بلاول زرداری اپنے اس جملے پر کب تک قائم رہتے ہیں کہ کسی کو الہام تو نہیں ہوتا یا چھٹی حس مفقود ہے! ضروری نہیں کہ ہر اداکار ہدایتکار کے معیار پر پورا اترے، ماضی بعید میں آپ کے نانا کی اداکاری بہرحال آپ سے بدرجہ بہتر تھی۔