آج بھارتی میڈیا ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے بلاول کی پریس کانفرنس پرشاداں وفرحاں ہے اوربارباراس پریس کانفرنس کو دکھارہاہے کہ جس میں بلاول عمران خان کوہدف تنقیدبناکر کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کی قیادت کوگرفتارنہیں بلکہ حفاظتی تحویل میں لیاگیاتاکہ بھارتی جہازانہیں اڑاکے نہ لے جائیں۔ بلاول کا دراصل بلیغ اشارہ پاکستان میں کشمیر کازسے منسلک رہنے والی اورکشمیرپرآوازبلند اوربھارتی جبروقہرکوطشت ازبام کرنے والی جماعتوں کی طرف تھا۔عجب معاملہ ہے کہ خانوادہ بھٹوسے آج ایسی آوازبلندہورہی ہے جوبھارت کے لئے باعث تمانیت ہے ۔حالانکہ اس سے قبل 5فروری یوم یکجہتی کشمیرکے موقع پر بھٹوکی شاندار روایت کے امین ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بلاول نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ’’ لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے‘‘بلاول نے اقوام متحدہ کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاتھا کہ یہ ادارہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام ہو چکا ہے اور کشمیری آج بھی اقوام عالم کے اس وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ہیں جو ان سے حق خود ارادیت کی صورت میں کیا گیا۔ بلاول کہہ رہے تھے کہ برصغیر میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ کشمیر کے مسئلہ کا حل نہ ہونا ہے اوریہ کہ اقوام عالم کو انسانی حقوق اور حق خود اختیاری کا احترام کرنا ہوگا اس سے پر امن اور بہتر دنیا وجود میں آ سکتی ہے۔ بلاول اقوام عالم سے اپیل کرتے ہوئے بھی نظرآئے کہ اقوام عالم پاکستان کے عوام کی بات سنیں جو جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں لیکن کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اقوام عالم بھٹوز کی آواز سن لیتیں تو آج دنیا کا امن ایک خواب نہ ہوتا۔کشمیرپربلاول کے ان خیالات پر تو پاکستان اور کشمیر کے عوام اس پریہ کہتے ہوئے بغلیں بجارہے تھے کہ بلاول بھٹو کا یہ اعلان دراصل ذ والفقارعلی بھٹوکی صدائے بازگشت ہے۔ لیکن امریکہ اوریورپ کی تازہ یاتراکے بعد بلاول کوکیاہوگیااس پرسوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ تاریخ کانوشتہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وہ واحد رہنما تھے جو کشمیر کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح سے آگاہ تھے۔ انہوںنے مسئلہ کشمیر پرپاکستانی قوم اور کشمیری عوام کی بے باک ترجمانی کی اور قائداعظم کے موقف کو تقویت بخشی۔بھٹو صاحب کے نزدیک پاکستان اور بھارت کی ترقی کیلئے ضروری تھا کہ دونوں ملک بقائے باہمی کے اصول کے تحت اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ جنگ اور جارحیت ان کے مسائل کا حل نہیں بھٹو صاحب نے دنیا کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کیا کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر اس خطہ کو پائیدار امن نہیںدے سکتے۔ اور اس کا طریقہ کار تقسیم کا وہی فارمولا ہے کہ جہاں مسلم اکثریت ہو وہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں ، اس طریقہ کار پر سب کا اتفاق تھا تو پھر کیوں کشمیر کے لوگ اس حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو ان کا یہ بنیادی حق دینے سے بھارت کیوں گریزاں ہے۔کشمیریوںکے حق خود ارادی اور کشمیریوں کی رائے کا احترام ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اور اسی صورت میںپاکستان اور بھارت اچھے ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ہی دونوں ہمسایوں کے درمیان پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان نسبتاً چھوٹا ملک ہے اور ہماری خارجی پالیسی کا بنیادی اصول تمام ملکوں خصوصاً ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ بھی امن اور دوستی چاہتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب بھارت اپنے عہدوپیمان کی تکمیل کرے جو اس نے کشمیریوں کے ساتھ کئے ہیں۔ اس حوالے سے بھٹو صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی میں وہ یادگار خطاب بھی کیاجسے پاکستان کی تاریخ کی بہترین تقریر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں اورنہ ہی یہ کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ رہا۔ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے حقیقت میں یہ بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان کا حصہ ہے۔ کشمیر کے لوگ پاکستانیوں کا حصہ ہیں ہم ایک ہیں ہمارا تعلق خون کا تعلق ہے۔ ہم ایک جسم کی مانند ہیں ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہے ہم ایک ہی خاندان اور قبیلہ ہیں۔الغرض ثقافت اور جغرافیہ اورتاریخ ہر طرح اور ہر لحاظ سے کشمیری پاکستان کے عوام کا حصہ ہیں۔ ہم ہزار سال تک جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں اوریہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔ بھٹو صاحب کا کشمیر پر یہ ٹھوس اوربلند آہنگ موقف اور بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا منفرد نعرہ پاکستانی قوم کو متحد اور یکجا کرنے کی بنیاد بن گیا۔ بھٹو بھارت کی ایٹمی استعداد حاصل کرنے کی پالیسی سے بخوبی آگاہ تھے اسی لئے انہوں نے بھارت کو بھرپور جواب دینے کے پختہ عزم کے ساتھ بھارتی سورمائوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو صاحب کا مسئلہ کشمیر پر ایوب خان سے اختلاف ہی ان کی حکومت سے علیحدگی اور پیپلز پارٹی کے قیام کی وجہ بنا۔ بھٹو کی کشمیر پالیسی کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی آگے بڑھایا اور اپنے والد کی طرح دلیرانہ انداز سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔1989ء میں دوبارہ مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ بن کرابھرا اور تحریک آزادی کشمیر کو دنیا بھر میں اخلاقی مدد حاصل ہوگئی۔کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کیلئے محترمہ نے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کی اورآل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے اپنی پارٹی پالیسی کا جزو ٹھہرایا۔ محترمہ نے 5فروری 1990ء کو بطور وزیر اعظم اس دن کوکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ محترمہ کے مطابق دونوں ملکوں کو اس مسئلے کے حل کیلئے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ محترمہ کے مطابق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ کشمیر کے دونوں اطراف کے باشندوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت ہو۔ محترمہ نے ہی سافٹ بارڈر کا تصور پیش کیا کہ دونوں اطراف کشمیریوں کے رشتہ دار بستے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے ملنے کی سہولت حاصل ہو،تاکہ اعتماد سازی کی فضا قائم ہو۔