بلاول صاحب کو وفاق سے مزید رقم کی توقع ہے اور ان کا مطالبہ ہے لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے وسائل لے چکے ہیں تو اب وفاق سے مزید رقم کی توقع اور امداد کا مطالبہ کس لیے؟ کیا اس سوال سے جمہوریت کو کالی کھانسی ، نزلہ اور زکام جیسی دیگر مہلک بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں حاصل ہونے والے وسائل کہاں گئے کہ اب وفاق سے مدد مانگی جا رہی ہے؟ اٹھارویں ترمیم کے سب سے زیادہ قصیدے پیپلز پارٹی نے پڑھے۔ اسی نے ہمیں بتایا کہ اب صوبوں کو مالیاتی خود مختاری مل چکی ہے اور وہ وفاق کے محتاج نہیں رہے۔ یہ رجز بھی پیپلز پارٹی نے پڑھے کہ صوبوں کا پیسہ ا ب صوبوں کی مرضی سے خرچ ہو گا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ سارے رجز چند دنوں کی بارش میں دست سوال بن گئے اور مالیاتی خود مختاری کے فسانے سے اس امید اور مطالبے نے جنم لیا کہ وفاق ہماری امداد کرے؟ وفاق تو یقینا امداد کرے گا لیکن اس سے پہلے اس سوال کا گلا کیسے گھونٹا جائے کہ جو پیسے صوبے کو مل چکے تھے وہ کہاں گئے؟ کراچی کے حالات نے بہت سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک سوال یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کے عوام کو کیا دیا؟ صوبائی اشرافیہ کے تو یقینا مزے ہو گئے ہوں گے لیکن سوال حکومتوں اور اشرافیہ کا نہیں سوال عوام کا ہے۔دو بارشوں کے بعد بھی اگر وفاق ہی سے پیسے مانگنے ہیں تو اٹھارویں ترمیم کی افادیت کیا ہے؟ کسی عام آدمی کو نہیں ،بلاول بھٹو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر پارلیمنٹیرینز اور قانون دانوں کو بلا لیں اور ان سے پوچھ لیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بارشوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے نبٹنا وفاق کا کام ہے یا صوبے کا؟ ایک آئی جی کی تعیناتی کا معاملہ ہو تو صوبائی خودمختاری کے رجز پڑھے جاتے ہیں لیکن دو بارشیں آ جائیں تو صوبائی خود مختاری کے سارے رجز بھول جاتے ہیں۔یہ درست کہ غیر معمولی صورت حال میں وفاق بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتا اسے عوام کی بہتری کے لیے بروئے کار آنا ہو گا لیکن اس سے پہلے یہ سوال تو اٹھے گا کہ کیا بحران کی نوعیت واقعی ایسی ہے کہ صوبے کے مالی وسائل اس سے نبٹنے سے قاصر ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔ آئین کا انتظامی حلیہ اسی اٹھارویں ترمیم نے بدلا۔ یہ ایک معاشی واردات تھی۔ نواز شریف اس لیے راضی ہو گئے کہ بدلے میں ان کے لیے وزارت عظمی کا راستہ صاف کر دیا گیا ۔ تاجر کے حساب سودوزیاں کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ باقی کہانی پیپلز پارٹی کے سندھ تک سکڑتے موسموں میں معاشی مفادات کا تحفظ تھا۔ نتیجہ آج کراچی بھگت رہا ہے۔ آئین میں ایک کنکرنٹ لسٹ تھی۔ یہ وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کار کا خوبصورت انتظام تھا۔ اٹھارویں ترمیم نے اس انتظام کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ساتھ ہی تماشا یہ ہوا کہ دعوے فرمائے گئے ہم نے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھٹو صاحب کے بنائے تہتر کے آئین میں کنکرنٹ لسٹ تھی یا نہیں؟ اگر وہ اس میں شامل تھی تو اسے منسوخ کر کے آپ نے آئین کا حلیہ بدل دیا یا آپ نے اسے اصل شکل میں بحال کیا؟ بھٹو ٹھیک تھے جنہوں نے آئین میں کنکرنٹ لسٹ ڈالی یا آصف زرداری ٹھیک تھے جنہوں نے اس لسٹ کو ختم ہی کر ڈالا؟پیپلز پارٹی پہلے یہ فیصلہ تو کر لے کہ ہر دو رہنمائوں میں سے کس کی بصیرت کی تحسین کرنا ہے۔ کنکرنٹ لسٹ ختم کر کے امور ریاست کو اٹھارویں ترمیم نے ایک تماشا بنا دیا ۔تعلیم جیسا اہم معاملہ جو قوم کی فکری تشکیل میں اہم کردار ادا کر تا ہے اب صوبوں کا معاملہ ہے۔ جس ملک میں ہر صوبے کا اپنا نصاب ہو وہاں قوم میں وحدت فکر پیدا ہو گی یا منتشر الخیال ہجوم جنم لے گا؟ یہی معاملہ صحت کا ہے۔ یہ اب خالصتا صوبائی معاملہ ہے۔ ہر صوبے کے اپنے ڈرگ قوانین ہوں گے۔ایک دوا کی فروخت رحیم یار خان تک جائز ہو گی اس سے آگے سندھ کی حدود میں نیا قانون تعین کرے گا ،یہ جائز ہے یا ناجائز۔ کنکرنٹ لسٹ ختم کر دی ، محکمے لے لیے اور صلاحیت ہے ہی نہیں کہ انہیں چلایا جا سکے چنانچہ ہم حیرت سے یہ خبریں پڑھتے ہیں کہ سندھ کا ہیلتھ بجٹ این جی اوز کے ذریعے خرچ ہوتا رہا۔کیا یہ ہے وہ صوبائی خود مختاری جس کے رجز پڑھے جاتے تھے؟ صوبوں نے وسائل تو لے لیے۔ ٹیکس ریونیو میں وفاق کے حصے میں42 اعشاریہ 5 فیصد رہ گیا۔صوبے57 اعشاریہ 5 فیصد لے گئے۔آئیں میں یہ بھی لکھ دیا کہ ہر سال صوبوں کو ملنے والی رقم گذشتہ سال سے کم نہیں ہو سکتی۔دل چسپ بات یہ کہ بیرونی قرض کی واپسی کا بوجھ صرف وفاق پر ہے۔ صوبے وسائل تو لے بھاگے لیکن کسی نے اس پر غور نہیں فرمایا کہ بیرونی قرض کی ادائیگی میں بھی تو صوبوں کو شیئر ہونا چاہیے تھا۔وہ کیوں نہیں رکھا گیا۔ مزید دل چسپ معاملہ یہ ہوا کہ صوبے براہ راست غیر ملکی قرض لے سکتے ہیں۔صوبے ہائیڈرل پراجیکٹس پر حق جتا رہے ہیں لیکن لائن لاسز کا بوجھ وفاق نے اٹھانا ہے۔سندھ تو جی ایس ٹی کا حق بھی مانگ رہا ہے اور برادرم سینیٹر عثمان کاکڑ صاحب جیسے قوم پرست رہنما اٹھارویں ترمیم کے بازوئے شمشیر زن بنے ہوئے ہیں لیکن یہ حساب انہوں نے بھی کبھی نہیں کیا کہ جب جی ایس ٹی وفاق لیتا تھا تب تو سب صوبوں کو کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا لیکن جب جی ایس ٹی صوبے لیا کریں گے تو بلوچستان کو کیا ملے گا؟ اس کا کیا بنے گا؟بلوچستان میں معاشی سرگرمی ہی کتنی ہے کہ وہ جی ایس ٹی اکٹھا کر سکے گا؟ زراعت اور اس سے جڑی سروسز پر ٹیکس پہلے وفاق لیتا تھا اب صوبے لیتے ہیں۔لیکن دو بارشیں آ جائیں تو صوبائی حکومت اپنی بد انتظامی اور کوتاہی پر نادم ہونے کی بجائے مزید پیسے مانگنا شروع ہو جاتی ہے۔وفاق کو یقینا ہنگامی بنیادوں پر امدادی پیکج کا اعلان کرنا چاہیے ۔لیکن یہ امداد اگر انہی ہاتھوں میں جانی ہے جہاں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ جاتا رہا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے یہ امداد درست طور پر استعمال ہو بھی سکے گی ؟ آپ نے تقسیم کار کا آئینی فارمولا بد دیا، آپ نے وہ کنکرنٹ لسٹ ختم کر دی جو خود بھٹو صاحب نے آئین میں شامل کی تھی، آپ نے وفاق سے بہت سارے محکمے لے لیے اور صوبوں کو دے دیے، آپ نے ٹیکس ریوینیو کا 57 فیصد صوبوں کو دے دیااور آپ نے صوبوں کو مالی خود مختاری دے دی، سوال اب یہ ہے کہ اس سب کے باوجود آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ اٹھارویں ترمیم کو آئے تو اب بہت سال ہو چکے۔ جب سے اٹھارویں ترمیم آئی ہے سندھ میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ کی حالت میں کیا تبدیلی آئی ہے ؟