اسلام آباد(خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کاتحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل سے نکالے جائیں،25 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے معاملہ نیب کوبھجواتے ہوئے چیف جسٹس کوسفارش کی ہے کہ معاملے کی مانیٹرنگ کے لیے بینچ تشکیل دیا جائے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے تحریر کردہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے تمام ممبران نیب کو مزید تحقیقات میں معاونت فراہم کریں گے ، جے آئی ٹی نامکمل معاملات کی تحقیقات جاری رکھے گی اورتحقیقات مکمل کر کے نیب کو بھجوائے گی،نیب جے آئی رپورٹ کی روشنی میں اپنی تحقیقات مکمل کرے ۔تحقیقات میں جرم بنتا ہو تو احتساب عدالت اسلام آباد میں ریفرنس فائل کیے جائیں ۔ چئیرمین نیب مستند ڈی جی کو ریفرنس تیاری اور دائر کرنے کی ذمہ داری دیں۔ مستند اور تجربہ کار افسران پر مشتمل ٹیم ریفرنسز کی پراسکیوشن کے لیے تشکیل دی جائے ،نیب اپنی پندہ روزہ تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، نیب رپورٹ کا جائزہ عمل درآمد بینچ لے گا۔ حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں رکھنے سے اُن کے کام میں مسائل پیدا اور اُن کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوگی ۔ نیب مراد علی شاہ ، بلاول بھٹو اور دیگر کے خلاف تحقیقات جاری رکھے ،دونوں کے خلاف شواہد آئیں تو نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کااور بادی النظر میں نیب کو بھجوانے سے متعلقہ ہے ۔جے آئی ٹی کے مطابق معاملہ کمیشن، سرکاری خزانے میں بے ضابطگیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال کا ہے ،فریقین کے وکلا عدالت کو متاثر کُن دلائل نہیں دے سکے ، چند وکلا نے تسلیم کیا کہ معاملہ نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔عدالت عظمٰی نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب اپیل خارج کرنے کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا ۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ،جسٹس گلزار احمد،جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں سزا معطلی کے ہائی کورٹ کے فیصلے پر کچھ اعتراضات اٹھاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کی گائڈ لائن کو مدنظر نہیں رکھا جبکہ فیصلے میں کچھ حتمی نتائج بھی اخذ کئے اور ضمانت کی درخواستیں اس وقت سن کر فیصلہ کیا گیا جب عدالت کے سامنے سزاؤں کے خلاف اصل اپیلیں بھی سماعت کیلئے مقرر ہوگئی تھیں۔ پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس آصف سعید نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے 41 صفحات پر مشتمل طویل ضمانت کا فیصلہ تحریر کیا حالانکہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ضمانت کے فیصلے مختصر لکھے جائیں۔ فیصلے میں ہائی کورٹ کی طرف سے کیس کے حقائق کو جانچنے پر بھی اعتراض کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نواز شریف اور مریم کو ضمانت دیتے ہوئے کیس کے میرٹس کو بھی زیر بحث لے آئی ،نیب مقدمات خصوصی قانون کے تحت چلتے ہیں اور نیب کیسز میں ہائی کورٹ غیر معمولی صورتحال میں اپنا آئینی دائرہ اختیار استعمال کرکے فیصلہ کرسکتی ہے لیکن زیر غور کیس میں ایسے کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے ۔نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ ضمانت کے لئے اصول قانون الگ ہے اور ضمانت کی منسوخی کے لئے الگ ، نواز شریف کی ضمانت اور اس کی منسوخی کیلئے وجوہات بالکل مختلف ہیں، نیب کی ایک اپیل ایسے شخص کے خلاف ہے جو پہلے ہی پابند سلاسل ہے اور ان کے خلاف ضمانت کے غلط استعمال کا الزام بھی نہیں جبکہ دوسری اپیل میں فریق ایک خاتون ہے جس کو قانون ضمانت کے مقدمات میں رعایت فراہم کرتا ہے ۔عدالت عظمٰی نے جرگہ اور پنچایت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہدایت کی ہے ریاست ہر شخص کو عدالت تک رسائی دے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جرگہ اور پنچایت سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر کے قرار دیا جرگے اور پنچایت کے نام عدالتی اختیارات کا استعمال آئین و قانون اور عالمی کنونشنز کے خلاف ہے ،جرگہ اور پنچایت آئین کے آرٹیکل چار ،آٹھ اور 25 ک سے متصادم ہے ۔جرگہ اور پنچایت دو فریقوں کے درمیان ثالثی اور مفاہمت کا کردار تو ادا کرسکتا ہے لیکن فیصلے نہیں کرسکتے ،ان کا کوئی بھی فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور جرگہ کے نام پر کوئی شخص عدالتی کردار ادا نہیں کرسکتا ۔فیصلہ چیف جسٹس نے تحریرکیا جو 33صفحات پر مشتمل ہے ۔فیصلے میں خیبر پختونخوا حکومت کو صوبے میں چھ مہینے کے اندر یکساں عدالتی نظام قائم کرنے جبکہ پشاور ہائی کورٹ کوقبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے متعلقہ علاقوں میں ہونے والے واقعات پہ نظر رکھیں اور ایف آئی آر کا اندراج یقینی بنائیں ۔ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ پاکستانی شہریوں سے ہٹ کر سلوک نہیں ہوسکتا، 25 ویں ترمیم کے بعد فاٹا بھی خیبرپختونخوا کا حصہ بن گیا ہے ۔