نیب میں بلاول بھٹو کی پیشی پر کمال کی دھمال ہوئی۔ سینکڑوں جیالوں نے عشروں پہلے کی سیاست یاد کرا دی۔ بلاول اور ان کے پاپا پر سندھ میں کیس بنائے گئے ہیں لیکن پیشی اسلام آباد میں ہوئی۔ کارکنوں نے اکٹھے ہو کر نعرے لگائے‘ مظاہرہ کیا اور حکومت کو ہواس باختہ کر دیا۔ کمال کی بات ہے کہ تیس منٹ کی اس دھمال سے وہ حکومت پریشان ہوئی جس نے 2014ء میں نوے روز تک کمبھ میلہ سجایا تھا۔ تین مہینے کے غل غپاڑے پر یہ تیس منٹ کی قوالی بازی لے گئی۔بلاول نے اس موقع پر ٹویٹ بھی کیا۔ میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے۔ یہ حبیب جالب مرحوم کے کلام سے ہے اور جس نے بھی پڑھا‘ نہیں بچا چاہے وہ شہباز شریف جیسا مقبول سیرت ہی کیوں نہ ہو۔ خود جالب مرحوم نے اپنا یہ کلام پڑھا، نہیں بچے۔ جالب چاہتے تو یہ مصرعہ یوں بھی کہہ سکتے تھے۔ میں بھی منصور ہوں کہہ دو احباب سے‘ لیکن فرق پھر بھی نہیں پڑنا تھا۔احباب ہوں یا اغیار‘ منصور ہمیشہ ’’پرسنانان گریٹا‘‘ ہی رہتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول اور ان کے پاپا پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے کیس ہیں اور ہر طرف سے خبری یہ خبر لا رہے ہیں کہ ان گننت ناقابل تردید ثبوت مل گئے۔ بے شمار گواہوں نے ناقابل تردید گواہیاں ریکارڈ کرائیں۔ بہت لوگ اور بھی پکڑے جائیں گے۔بہت دل خوش کن اطلاع ہے۔ اربوں کھربوں کی یافت قومی خزانے کو ہونے والی ہے۔ غیر ملکی قرضے اتر جائیں گے۔ لیکن ایسی ہی دل خوش کن خوشخبری کئی برس پہلے ڈاکٹر عاصم کے کیس میں بھی ملی تھی۔ محب وطن خبریوں نے دن رات ٹی وی پر یہ اطلاع دی تھی کہ سینکڑوں ارب کی کرپشن ہوئی ہے۔ ناقابل تردید گواہیاں مل گئی ہیں۔ گواہ طوطے کی طرح بول پڑے ہیں۔ اربوں کھربوں برآمد ہونے والے ہیں۔ ہفتوں مہینوں نہیں‘ دنوں کی بات ہے۔ دن گزرے‘ مہینے بیت گئے۔ کئی سال ہونے کو آئے‘ اربوں کھربوں کیا‘ چونی کا سراغ بھی نہیں ملا۔ ناقابل تردید ثبوت‘ گم‘ گواہ اور ان کی گواہیاں لاپتہ ہو گئیں۔ شاید بختاور نے اسی حوالے سے بیان دیاہے کہ کرپشن نہیں‘ یہ سب سیاست کے کیس ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خان صاحب کو جب حکومت ملی تو انہوں نے سب سے پہلے’’نہ کھپے‘‘ کی ایک فہرست احباب کو دی تھی کہ جب تک یہ سارے صاف نہیں ہو جاتے‘ کچھ ڈلیور نہیں کر سکوں گا۔ بلاول کا نام نہ کھپے والی اس فہرست میں شامل تھا۔ نواز شریف تو پہلے ہی’’نہ کھپے‘‘ کئے جا چکے تھے۔ دیگر ناموں میں زرداری‘ شہباز ‘ فریال‘ مراد علی شاہ‘ شاہد خاقان‘ فضل الرحمن اور دیگر شامل ہیں۔ حنیف عباسی کو بھی شیخ رشید کے کہنے پر پہلے ہی نہ کھپے کر دیا گیا تھا۔ فہرست پر عمل کے لئے نیب والوں کی تنخواہوں میں دو گنے سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن کہتے ہیں‘ ساری فہرست چیک آئوٹ ہوتے ہوتے خاصا وقت لگے گا اور جب تک سارے ’’نہ کھپے‘‘ نہیں ہو جاتے‘ڈلیوری کی امید رکھی جائے نہ ڈلیورننس کی۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ روز کٹھ پتلیوں کا عالمی دن تھا۔ بلاول کی بزلہ سنجی دیکھیے کہ حکومت کو اس دن کی مبارکباد دینے کا ٹویٹ کر ڈالا۔حکومت اسے بلاول کا اظہار خیر سگالی سمجھے‘کوئی اور مطلب نہ لے۔ بہرحال ٹویٹ نامکمل ہے۔ اس میں مطالبہ یا تجویز شامل ہونی چاہیے تھی کہ پاکستان میں ہر سال ’’یوم کٹھ پتلیاں‘‘ سرکاری طور پر دھوم دھام سے منایا جایا کرے۔ دھوم دھام ہی نہیں‘ تزک و احتشام سے بھی۔ ٭٭٭٭٭ ہفتہ بھر سے افواہیں تھیں کہ پنجاب میں بزکشی ہونے والی ہے لیکن اب خبر آئی کہ بزدار کی بلا ٹل گئی۔ افواہیں یکسر بے بنیاد تھیں چنانچہ بلا کے آنے یا ٹلنے کا بھی سوال ہی نہیں تھا۔ وجہ ان افواہوں کی یہ تھی کہ پنجاب میں حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں چار گنا اضافہ کر دیا تھا اور اس اضافے پر یہ خبر آئی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ خاں صاحب اس پر بہت ناراض ہوئے ہیں۔ نوٹس تب لیا جب بل پاس ہو گیا۔ صاف سیدھی بات ہے کہ سب مرضی سے ہوا۔ گڑ بڑ تب ہوئی جب بل میں وزیر اعلیٰ کی تنخواہ اتنی بڑھا دی گئی کہ وزیر اعظم سے زیادہ ہو گئی۔ اس پر ناراضی فطری تھی۔ چنانچہ’’توہین مراتب‘‘ کا نوٹس لیا گیا اور یہ غلطی رفع کر دی گئی۔ باقی بل بحال ہے اور جوں کا توں ہے۔ قصہ ختم۔ ہاں اس دوران سرکاری گیسٹ ہائوس کا قیمتی سازوسامان خاموشی سے بزدار اپنے گھر لے گئے۔ بھولپن میں لے گئے۔ اللہ برکت دے۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی حکومت نے 290ارب کا زرعی پروگرام منظور کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ جہانگیر ترین کی 290ارب کی لاٹری نکل آئی۔ یہ ان کی چھ مہینوں میں دوسری لاٹری ہے۔ پہلی لاٹری ’’تبدیلی‘‘ آتے ہی نکلی تھی جب چینی کی قیمت اچانک سے تین روپے کلو بڑھا دی گئی تھی۔ وہ لاٹری بھی اربوں کی تھی۔ اربوں سے اربوں ملیں کر کر لمبے ہاتھ۔ایک لاٹری چند ماہ پہلے وفاقی وزیر رزاق دائود کی بھی نکلی تھی۔300ارب کی بنام مہمند ڈیم۔ ڈیم تو بنانا ہی نہیں ہے۔ کہنے والوں نے کہہ دیا کہ ڈیم نہیں بنانا‘ صرف آگاہی پھیلانی ہے۔ہر دو حضرات کو یہ لاٹریاں مبارک انہیں ’’سب سڈی‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ قبلہ پرویز الٰہی نے کیا بیان دیدیا۔ فرمایا خدا نے سپیکر بنا دیا‘ اب اگلی منزل تک بھی پہنچائے گا۔اگلی منزل سے کیا مراد ہے؟ وزارت اعلیٰ تو ہو نہیں سکتی۔ یہ منزل آپ مشرف کے دور میں سر کر چکے۔ نکّے ننھے وزیر اعظم والی منزل بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے مزے آپ زرداری دور میں لوٹ چکے۔ کہیں نظر وزارت عظمیٰ پر تو نہیں؟ خاں صاحب کالے بکروں کا بندوبست کررکھیں۔