بلاول زرداری کاجنوبی پنجاب کے مختلف شہروں کا حالیہ دورہ سیاسی سطح پر کوئی ہلچل مچا سکا کہ نہیں ؟اس پہلو کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ بلاول زرداری نے ہنگامی نوعیت کا دورہ کیوں کیا؟اس ضمن میں آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی کا اظہار سامنے آتا ہے۔یہ آصف علی زرداری کی پالیسی ہے۔یہ جگہ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں محسوس کی گئی اور یوں بلوچستان سے بعض پُرانے چہروں کو پارٹی میں لایا گیا اور پھر وہی طریقہ کار جنوبی پنجاب میں ملحوظ رکھا گیا۔ ملتان اورڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پیپلزپارٹی کی سیاست یوسف رضا گیلانی کے گرد گھومتی پائی جارہی ہے ۔جن لوگوں کو پارٹی میں لایا جارہا ہے ،وہ قبل ازیں سیاست کا حصہ رہ چکے ہیں۔ایسے لوگوں میں لیہ کا سیہڑ خاندان بھی ہے۔یہ خاندان طویل عرصہ پی پی پی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اُترتارہا ،لیکن ق لیگ اور پاکستان تحریکِ انصاف میں بھی یہ خاندان رہا۔اس وقت شہاب الدین خان سیہڑپاکستان تحریکِ انصاف کی سیٹ پر ایم پی اے ہیں۔پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے بہادر خان سیہڑ نے دوہزار اَٹھارہ کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا اور قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔اِ ن کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ٹکٹ پہلے تو اِن کو دیا ،پھر اچانک امجد نیازی کو دے دیا گیا۔امجد نیازی جیت گئے۔امجد نیازی کی جیت سے پہلے بہادر خان کی جیت کا اعلان بھی ہوا تھا۔سیہڑ خاندان کے بہادر خان کے پاس پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا،اب پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔پیپلزپارٹی کو اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے ایک اُمیدوار کی ضرورت تھی اور بہادر خان کو ایک جماعت کی ضرور ت تھی۔یوں دونوں کی ضرورت پوری ہوئی ۔لیکن بہادر خان سیٹ نکالنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کا اُمیدوار پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے اُمیدواروں کے ہم پلہ ہے۔اگرچہ اگلے انتخابات سے چند ماہ قبل کی فضا ان تینوں کی ہارجیت کا فیصلہ کرے گی،مگر امجد نیازی جو کہ پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں اور پارلیمنٹ میں بلاول پر جملے کسنے کی وجہ سے لیہ کے لوگوں سے احتجاج کی صورت نفرت سمیٹ چکے ہیں اور مقامی سیاسی لیڈرشپ سے لڑائی جھگڑوں کی صورت کافی شہرت رکھتے ہیں ،لیکن یہ سیٹ نکالنے کا وہ گُر جانتے ہیں ،جس گُرکو ملحوظ رکھ کر ایک وقت سیہڑ خاندان یہاں سے سیٹ نکالتا رہا ہے۔اس حلقے کا ووٹرز تین حصوں میں تقسیم ہے۔ایک حصہ کے ووٹرز دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ہے ،جس کوکچے کا علاقہ کہتے ہیں ،یہاں کا ووٹرز ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتا ہے ،جوکہ ہمیشہ سیہڑ خاندان کا انتخاب کرتا ہے۔ دوسری نوع کا ووٹرز شہری ثقافت سے تعلق رکھتا ہے ،یہ فضا اور پارٹی کو ووٹ دیتا ہے۔تیسری قسم کا ووٹرز تھل کے علاقے کا ہے ،جس میں پنجابی آباد کار بھی ہیں،پنجابی آباد کار ووٹرز میں زیادہ جڑیں پی ایم ایل این کے اُمیدوار کی ہیں۔ پیپلزپارٹی بلوچستان کے بعد جنوبی پنجاب میں اپنے لیے جگہ پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔لیکن جنوبی پنجاب میں جو خاندان پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں،اُن کی اپنی سیاست کو بقا کا اندیشہ لاحق ہے۔اگلے الیکشن میں یہ خاندان اپنے اپنے حلقوں میں سیاسی بقا کی جنگ لڑنے کی کوشش کریں گے۔پیپلزپارٹی کو یہ معلوم ہے کہ اگلے انتخابات میں پنجاب میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے مابین جوڑ پڑے گا۔پیپلزپارٹی اس معرکے میں جنوبی پنجاب میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش میں ہے۔جنوبی پنجاب کا دانشوراور ادیب غیر سیاسی قوتوں کے سامنے مزاحمت کرتا ہے جبکہ یہاں کا سیاست دان مزاحمت کی جگہ مفادات کی سیاست کرتا ہے ۔ اگلے الیکشن میں یہاں کے سیاست دانوں کو سیاسی مفادات نظر آئے تو یہ پی پی پی کا رُخ کریں گے ورنہ نہیں اور جو پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں یا آنے والے وقت میں کریں گے ،وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں،وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اگلے الیکشن میں سیٹ نکال سکیں۔ پیپلزپارٹی الگ صوبے کے دعوے پر اگلا الیکشن لڑے گی ۔یہ دعویٰ ایسا ہی ثابت ہوگا جیسا کہ پی ٹی آئی نے کیا تھا۔اگر مریم نواز جنوبی پنجاب کا ایسا ہی وزٹ کریں ،جیسا کہ بلاول زرداری نے کیا ہے تو یہ بھی ایسے ہی نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔مگر جنوبی پنجاب پی ایم ایل این کی ترجیح میں کبھی نہیں رہا۔تاہم حالیہ بلاول کے دورہ میں یہاں کے لوگوں نے بلاول سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا ہے۔یہاں کے دانشوروں نے بلاول کو اپنی کتابیں پیش کیں اور عام ووٹرز نے پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔اس سے زیادہ یہاں کے لوگ اور کیا کرسکتے ہیں؟