بھادوں کا مہینہ ختم ہونے کو آیا مگر حبس ابھی تک ہے مگر اتنا نہیں کہ مصرع پڑھنا پڑے کہ ’’وہ حبس تھا کہ لُو کی دعا مانگتے تھے لوگ’’ملکی حالات بھی کچھ ایسے ہی دگرگوں ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔مہنگائی سب کو پسپا کر رہی ہے اس گھٹن اور بے چینی میں بھی سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی پوسٹ ایسی ہوتی ہے کہ گدگدی کر کے ہمیں مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان مزاحیہ پوسٹوں کے ساتھ مجھے بلاول کا حالیہ بیان کیوں ملتا جلتا ہوا محسوس ہوا کہ جس میں انہوں نے اسلام آباد کو دھمکی دی ہے کہ وہ کراچی پر قبضہ کی کوشش نہ کریں اوروہی پرانا کارڈ پھر کھیل دیا کہ اگر بنگلہ دیش بن سکتا ہے تو پھر سندھو‘ سرائیکی اور پشتون دیس بھی بن سکتے ہیں۔ سمجھ میںنہیں آتا کہ بلاول یہ دعویٰ کس بنیاد پر کرتے ہیں حالانکہ سندھ پر قبضہ تو ان کا ہے اور کراچی پر ایم کیو ایم سپید و سیاہ کی مالک رہی۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب ان کے پائوں جلنے لگتے ہیںانہیں سندھ کارڈ یاد آ جاتا ہے۔ کہنے والے کیا کچھ کہتے ہیں کہ کراچی کو تو چھوڑیے انہوں نے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ کا برا حال کر رکھا ہے وہاں ایڈز کے مریضوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں اس کو بھی چھوڑیے ان کے باباجانی کی داستانیں کتابی صورت میں چھاپی جا سکتی ہیں۔ خزانے پر ’’تصرف‘‘جعلی اکائونٹس کا معاملہ اور صوبے کے وسائل کا بے دریغ استعمال ۔ کوئی ایک بات ہو تو انسان لکھے’’جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ پھر چوری اور سینہ زوری کہ نیب کی کیا مجال کہ انہیں ہاتھ ڈال سکے۔ یہ لوگ تو آخر ان کے قدموں پر گریں گے۔ بندہ کس کس کی بات کرے۔ ایان علی سے لے کر ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کس کس کا ذکر کریں۔آپ نے تو پورے سندھ کویرغمال بنا رکھا ہے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے اس پر تو الطاف حسین کا تصرف تھا۔ پیپلز پارٹی کو وہاں کون پوچھتا تھا ایک ذوالفقار مرزا تھا جس نے اپنی ’’امن فوج‘‘ بنا رکھی تھی اور پیپلز پارٹی کا دو تین مقامات پر بھرم قائم رکھا تھا پھر ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ اسی لنگوٹیہ یار نے ایسی نائو میں پتھر ڈال دیے اور لنکا ڈھا دی۔کیا یہ تماشہ نہیں لگایا گیا کہ کرپشن پر این آر او ہوا اور پھر اسے قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ آپ ان کی کہانیاں کراچی جا کر سنیں مجھے وہاں جانے کا اور کہانیاں سننے کا اتفاق ہوا۔ بظاہر وہاں کے سٹیک ہولڈر آپس میں لڑتے جھگڑتے محسوس ہوتے ہیں مگر اندر سے سب ملے ہوئے ہیں۔ ایک پارٹنر یہ ‘ دوسرا باہر بیٹھا نامعلوم افراد کا سربراہ اور تیسرا پراپرٹی آئی کون اورتواورانہوں نے سمندر کی چھوڑی ہوئی زمین بھی نہیں چھوڑی۔ یہ چائنہ کٹنگ کس کی مرضی سے ہوئی ایک کی بے کسی اور ایک کی بے بسی نے انہیں یکجا کر دیا تھا اور پھر ہاتھیوں کی لڑائی میں پامال کون ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر درجن بھر لوگوں کو خون میںنہلایا جاتا رہا۔ اڑھائی سو لوگوں کا بلدیہ فیکٹری میں جل کر کوئلہ ہو جانا کیا معمولی واقعہ ہے۔: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ تنگ آ کر کس نے مداخلت کی تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت بند ہوئی۔ کس نے کہا کہ No moreہم تو اب تک حیران ہیں کہ یہ کاشن اتنی دیر میں کیوں دیا گیا’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘ کس نے کراچی میں خاک اڑائی کس نے معصوم لوگوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔ کراچی کی سڑکوں پر تڑپتے لاشے‘ وکیلوں کا زندہ جلنا۔ مجھے تب کی لکھی ایک نظم کا شعر یاد آ گیا: کس طرح پاک ہوئے اشک بہانے والے یہی معصوم ہیں زندوں کو جلانے والے تب کراچی کا کوئی بھی والی وارث نہیں تھا۔ ایک موہوم سے اشارے پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ یاد ہے بلاول جی؟ ’’ہمیں یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ لگتا تھا کراچی پاکستان کا حصہ ہی نہیں ٹھیک ہے زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تو سب کے دل پیسج گئے مگر آپ کی پزیرائی کے باوجود آپ لوگ نہیں بدلے۔ ریاستی ادارے کے خلاف میمورنڈم کون بھولے گا۔ ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے‘‘ واہ بلاول صاحب! آپ کو بڑی دیر کے بعد کراچی کا خیال آیا کہ اس پر آپ کی دست برد ختم ہوتی جا رہی ہے کراچی بھی کیا بدقسمت شہر ہے کہ جس کی روشنیاں چھین لی گئیں‘ وہاں کچرے کے سوا کچھ نہیں اور جہاں پانی کی قلت ہے۔ اگر کوئی مصطفی کمال جیسا شخص اس کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اسے ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ ویسے بلاول سے ہمیں بہت امیدیں تھیں ۔ مگر وہ اپنے بابا جانی کے اثر سے نکل نہیں سکا۔ عمران خاں کے آنے کے بعد بھی اس کی گفتگو اور تقریریں لوگوں کو متاثر کر گئیں کہ مدبرانہ تھیں اور مہذب۔ اسے کچھ انتظارکرنا چاہیے تھا کہ موجودہ حکومت اس کے لئے سپیس خود بخود بنا دیتی کہ تبدیلی معکوس کب تک چلے گی۔ یکایک بلاول کا آپے سے باہر ہو کر ترپ کا پتہ پھینک دینا شاید کارگر نہ ہو۔ یہ پتے پہلے بھی کئی بار شو ہو چکے ہیں ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ مولانا فضل الرحمن کی بے چینی تو سمجھ میں آتی ہے مگر بلاول کی نہیں۔ بلاول کو بھی پتہ ہے کہ کراچی پر کبھی بھی ان کا قبضہ نہیں رہا۔ وہاں تو آسیب کا قبضہ تھا جس پر بڑے عامل کو اپنا وظیفہ آزمانا پڑا۔ اور یہ جن ڈنڈے کے بغیر نکلنے والا نہیں تھا۔ یہ بڑی مزے کی بات ہے کہ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ کراچی سندھ کا دارالخلافہ رہا ہے۔ یہ ہمارا تجارتی مرکز بھی ہے۔ اللہ اس شہر پر اپنی رحمت کے سائے رکھے۔’’تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی‘‘