سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ منتخب بلدیاتی حکومتوں اور نمائندوں کو قبل از وقت ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسریاں مانا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں جمہوریت کی یہ نرسریاں جمہوری حکومت کے نشانے پر رہی ہیں۔ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے بلدیاتی انتخابات کو اس حد تک التوا کا شکار کیے رکھا کہ سپریم کورٹ کو انتخابات کروانے کا حکم جاری کرنا پڑا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت عدالتی حکم پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبور ہوئی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد پہلا کام غیر فعال بلدیاتی اداروں کو معطل کرنے کا کیا، یہاں تک کہ ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا اور سپریم کورٹ سے پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے بحالی کے باوجود پنجاب حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کو ٹائون ہال میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی اور میئر لاہور کو کھلے میدان میں احتجاجًا اجلاس کرنا پڑا۔ یہ سب وزیراعظم عمران خان کے دور اقتدار میں ہوا جو خود کو مقامی حکومتوں کے سب سے بڑے داعی کہتے ہیں۔ بہتر ہو گا پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد ناصرف فوری طور پر مقامی حکومتوں کو فعال کرے بلکہ مقامی نمائندوں کو فنڈز بھی فراہم کرے تا کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔