پنجاب حکومت نے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسودے کے مطابق کوئی منتخب نمائندہ لوکل گورنمنٹ کے خلاف کیس نہیں کرے گا جبکہ منتخب نمائندے کا کوئی رشتے دار کسی بھی آسامی پر بھرتی کے لیے درخواست دے گا تو اسے رشتہ داری ظاہر کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ منتخب نمائندہ اپنا دورانیہ ختم ہونے کے ایک سال بعد تک لوکل گورنمنٹ میں کسی بھی آسامی پر بھرتی کا اہل نہیں ہو گا۔ موجودہ حکومت ممبر رولز 2018ء کے مسودے کے مطابق قانون سازی کر دیتی ہے تو یہ مستقبل کے لیے بہت خوش آئند ہوگا۔ اس سے اقربا پروری اور لوٹ مار کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور بڑے بڑے سیاستدانوں کا اپنی اولاد کو منتخب کروا کر بعدازاں محکمے میں کسی اچھی پوسٹ پر بھرتی کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ بلدیاتی نمائندے منتخب ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ کے ملازمین سے گھریلو کام کاج لیتے ہیں۔ بسااوقات تو سرکاری ملازمین کی حاضری بھی بلدیاتی نمائندوں کے گھروں میں ہی لگتی تھی لیکن اس قانون سے وہ کسی بھی سرکاری ملازم سے ذاتی کام نہیں لے سکیں گے۔ اگر کوئی بھی نمائندہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا تو حکومت اسے برطرف کرسکے گی۔ لازمی طور پر ان قواعد و ضوابط کے بعد ایک اچھا نظام ہو گا جس سے اثرات نچلی سطح تک جائیں گے اور ایک حقیقی بلدیاتی سسٹم سامنے آئے گا جس کے بعد ادارے مضبوط ہوں گے۔