بلدیہ ٹائون فیکٹری میں آگ لگنے کے سانحے کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے انسانی تاریخ میں ورک پلیس پر ہونے والا بدترین سانحہ قرار دیا تھا۔ 11ستمبر 2012ء کی اس خونی شام کو سینکڑوں مزدوروں کو بھتہ نہ ملنے کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔آٹھ برس تک اس سانحے کے متاثرین‘ قانون اور انصاف کی غلام گردشوں میں انصاف کے لئے بھٹکتے رہے۔ آٹھ برس کے بعد اس کیس کا فیصلہ آیا بھی تو متاثرین خاندان کو مطمئن نہ کر سکا۔ جن کے پیارے ،جگر کے ٹکڑے،گھروں کے کفیل ظلم اور بربریت کی اس آگ میں جل کر راکھ ہوئے۔ انہوں نے آٹھ برس انتظار کیا ہے اس فیصلے کا۔ آٹھ برسوں میں چھیانوے مہینے ہوتے ہیں اور ان چھیانوے مہینوں میں کم و بیش تین سو چوراسی ہفتے تھے۔ ان تین سو چوراسی ہفتوں میں دو ہزار چھ سو اٹھاسی دن تھے۔ ان دو ہزار چھ سو اٹھاسی دنوں میں چونسٹھ ہزار پانچ سو بارہ گھنٹے تھے۔ چونسٹھ ہزار پانچ سو بارہ گھنٹوں میں کل ملا کر‘38لاکھ ستر ہزار سات سو چھبیس منٹ تھے اور ان 30لاکھ ستر ہزار سات سو چھبیس منٹوں میں 23کروڑ بائیس لاکھ پینتالیس ہزار تین سو دو سکینڈز تھے اور ان کروڑوں سکینڈز کا ہر ایک پل ایک ایک صدی بن کر ان کے شب و روز پر گزرتا رہا جن کے پیارے اس آگ میں جل کر ایسے راکھ ہوئے کہ ان کے خدوخال بھی شناخت نہیں ہوتے تھے۔بدقسمت مائوں نے اپنے سنہرے بدن بیٹوں کی لاشوں کی جگہ جلے ہوئے کوئلے دامن دل میں سمیٹے۔ ہائے کوئی ماں کے دکھ کی گہرائی کو پرکھنے والا آگہ ایجاد ہوا ہوتا تو پرکھتا کہ وہ مائیں کیسے ان آٹھ سالوں میں پل پل ایک ان دیکھی آگ میں جلتی رہی ہیں جیسے اجیت کور نے اپنی آگ میں مرنے والی جواں سال بیٹی کے دکھ میں لکھا کہ وہ تو جا چکی مگر جس آگ نے اس کے بدن کو جلایا، اب وہ آگ میرے کپڑوں کو میرے گوشت کو لگی ہوئی۔11ستمبر 2012ء کی خونی شام میں جلنے والوں کے پیاروں کے لئے حادثہ گزر کر بھی گزرا۔ ظلم کی وہ آگ ابھی تک دہکی ہوئی ہے۔ انصاف اور مکمل انصاف کے چھینٹے اس آگ کو قدرے ٹھنڈا کر سکتے تھے مگر اس معاشرے میں جہاں قانون انصاف‘ مساوات جیسے اعلیٰ و ارفع الفاظ کتابوں میں لکھے ہوئے تو ملتے ہوں مگر ان کی عملی صورت معاشرے میں دکھائی نہ دیتی ہو، وہاں مکمل انصاف کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ فیصلے سے متاثرہ خاندان مطمئن نہیں ہے کیونکہ ان کا مطالبہ ہے کہ بلدیہ ٹائون کے علاقے میں موجود گارمنٹس فیکٹری جس کا نام علی انٹرپرائز تھا۔ اس کے مالکان بھی اس حادثے کی سنگینی میں برابر کے شریک ہیں۔انہیں سزا سے مبرا کیوں رکھا گیا؟آگ لگانے والوں ‘زبیر چریا اور رحمان بھولا کو سزائے موت دی گئی ہے۔ آگ ویئر ہائوس میں لگائی گئی۔ اگر فیکٹری کے اندر مزدوروں کے تحفظ کے لئے لیبر قانون پر عملدرآمد مکمل طور پر ہوا ہوتا تو فیکٹری کی پوری عمارت میں آگ لگنے کی اطلاع دینے والے الارم ضرور لگے ہوتے۔ آگ لگتے ہی الارم بج اٹھتے۔ سینکڑوں مزدور جو فیکٹری کے مختلف یونٹ میں موجود تھے۔ وہ یہ الارم سنتے ہی ایمرجنسی کے لئے بنائے گئے Exit(خارجی) دروازوں سے فیکٹری کی عمارت سے باہر نکل جاتے ۔عالمی لیبر لاز فیکٹری مالکان کو پابند کر تے ہیں کہ وہ ورک پلیس پر کام کرنے والے مزدوروں کی صحت اور جان کا تحفظ یقینی بنائیں اس کے لئے ہر فیکٹری میں حادثے کی صورت مزدوروں کے بحفاظت باہر نکلنے کے لئے خارجی دروازے بنائے جاتے ہیں اوپر والے فلور پر کام کرنے والوں کے لئے باہر نکلنے کے لئے ایمرجنسی سیڑھیوں کے راستے ہوتے ہیں۔پوری فیکٹری میں حساس الارم لگائے جاتے ہیں کسی بھی حادثے کی صورت میں فوراً الارم بج اٹھتے ہیں یوں ورک پلیس پر ہونے والے حادثے میں کم از کم جانی نقصان ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کے غنڈوں نے جب ویئر ہائوس میں آگ لگائی تو اس آگ کو اوپر کے فلور اور پوری بلڈنگ میں پھیلنے میں وقت لگا، سینکڑوں مزدور تنخواہ کے لئے لائنیں بنائے کھڑے تھے جب آگ لگائی۔ آگ بھڑکی مگر بلڈنگ میں کوئی الارم موجود نہ تھا کہ بجتا ،آگ پھیلتی رہی،شعلے بپھرے ہوئے اژدھوں کی مانند آگے بڑھتے رہے ،بے کس مظلوم مزدوروں نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو ایمرجنسی کے خارجی دروازے ہی موجود نہ تھے۔مبینہ طور پر فیکٹری کے تمام خارجی دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ دروازوں کے سامنے گتے کے ڈبے اور سامان رکھ کر انہیں بند کیا گیا۔ ابتدائی تحقیق میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ ایسا فیکٹری مالکان کے کہنے پر کیا گیا جنہیں ڈر تھا کہ ورکر بھاگتے ہوئے فیکٹری کا قیمتی سامان ساتھ نہ لے جائیں۔ مزدوروں نے جلتی ہوئی عمارت کی کھڑکیوں سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو کھڑکیوں پر لوہے کے مضبوط سریے کی جالی بنی ہوئی تھی جان بچانے کے تمام راستے بند تھے۔ یوں سینکڑوں مزدور جو ایمرجنسی الارم اور ایمرجنسی خارجی دروازے ہونے کی موجودگی میں اپنی جانیں بچا سکتے تھے، جل کر بھسم ہو گئے ۔بیشتر دھواں بھرنے سے سانس گھٹ کر مر گئے۔ یہ ایسا ہولناک ظلم تھا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شواہد کی موجودگی میں فیکٹری کے مالکان ارشد بھاٹیہ اور شاہد بھاٹیہ پر بھی 264مزدوروں کے آگ میں جل مرنے کا مقدمہ بنتا تھا۔ کیونکہ وہ ان تمام مزدوروں کی جانب کے تحفظ کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے سینکڑوں مزدوروں کو جلنے مرنے کے لئے چھوڑ دیا لیکن وہ اس مقدمے میں صاف بچ نکلے۔ کراچی میں بزنس مینوں کی تمام بڑی تنظیمیں ان کے بچائو کے لئے آگے آ گئیں۔ 2015ء میں جے آئی ٹی کی تحقیقات میں انہیں بھی اس حادثے کا مجرم قرار دیا گیا مگر پھر سیاسی پریشر اور اثرورسوخ کے استعمال سے فیکٹری مالکان کا نام حادثے کے ذمہ داروں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ بلدیہ ٹائون سانحے کے متاثرین غم زدہ چہروں اور برستی آنکھوں کے ساتھ اپنے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے فیصلے کے بعد بھی میڈیا کے سامنے دہائی دے رہے ہیں کہ انصاف اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک فیکٹری کے مالکان سزا کے دائرے میں نہیں آتے۔