مکرمی ! بلدیہ عظمی کراچی میں لینڈ مافیا نرغے میںہے یہ کھیل افسران اور انکی سرپرست سیاسی جماعتیں کھیل رہی ہیں ۔ غلط کام نہ کرنے پر انتقام اور صعوبتیں دینے کا ناپاک سلسلہ جاری ہے۔ایسے ہی ایک افسر جو گریڈ انیس کے ہیں ۔گزشتہ ایک سال سے سخت عتاب میں ہیں ۔ جنہیں فلاحی زمینیں ٹھکانے لگا کر نہ دینے پر عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے سیاسی جماعت کے قائدین کو ملکر اور ہر طرح سے آگاہ کیا۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تئیس اگست دو ہزار سولہ کے بعد یہ سدھر گئے وہ جھوٹ اور مکرو فریب کرتے ہیں ۔ آج بھی وہی دھمکی ، گھروں پر چڑھائی اور بھتہ بازی ، دھونس دھمکی کی روایت اور عمل موجود ہے۔ بندوق کی نوک پر افسروں سے مرضی کا کام لیا جاتا ہے۔ جس افسر کا ہم ذکر کر رہے ہیں ان سے فلاحی زمینوں کو کوڑیوں کے مول خرید کر کمرشل مارکیٹ بنائی جا نی تھیں ۔ علی گڑھ پر تین ہزار چار سو گز، یو سی ڈی پر پانچ ہزار گز، بنارس نیشنل پر تین ہزار گز، سیکٹر تیرہ ایچ پر ایک ایکڑ، دس نمبر پر تین ہزار گز پر کرشل کرکے اربوں روپے کا گیم بنایا گیا تھا۔ جسکے لئے سیاسی رہنما نے اپنے کزن اور ایک خاتون مسرت کو میدان میں اتارا تھا۔ پے آرڈر ، فائلیں ، پی ٹیون فارم ، ٹیکس کچی آبادی سے بنوا کر جمع کرائے جا رہے تھے۔ رجسٹرار کو پندرہ لاکھ رشوت دیکر لیزیں کرنے کی تیاری کرلی گئی تھی۔ لیکن اس افسر نے دستخط سے انکار کردیا تو اسکے گھر پر تین بار دھاڑ ماری گئی لیکن انکی فیملی نے انہیں خاطر میں نا لاتے ہوئے قانونی ایکشن کی ٹھانی اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ بھی قابکل اعتراض ہے۔کسی کی بی عزت سستی نہیں ۔ افسر اگر ّج نیب سے ڈر کر کام نہیں کرتے تو کراچی میں ایم کیو ایم کی پرانی روش پر کیسے بچیں ۔ گھروں پر پہنچنا اور زچ کرنا آخر اس کا خاتمہ کب ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بلاول بھٹو، وزیر اعلی سندھ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، وزیر بلدیات سندھ ، وزیر تعلیم اور پی پی پی کراچی کے صدر سعید غنی ، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری بلدیات سندھ ، ڈی جی رینجرز، کورکمانڈر سندھ، آئی جی سندھ ، ارباب اختیار کو سرکاری افسران معتوب افسران کی مکمل مد د کو یقینی بنائیں تاکہ سرکاری اراضی پر قبضوں کا دھندہ ختم ہو سکے۔ (شہنیلہ خانزادہ)