ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ گھر کے آنگن میں بوڑھے باپ کی لاش پڑی ہو اور کوئی پرسہ کیا کاندھا دینے بھی نہ آئے تو اس گھر کے مکینوں پر کیا بیت رہی ہوگی ؟ یہ گئے مہینے کے آخری دنوں کی بات ہے جب نئی دہلی سے 68کلومیٹر دور اتر پردیش کے بلند شہر میں73برس کے روی شنکر نے آخری ہچکی لی او ر اپنی سانسیں پوری کر گیا،وہ اپنے بوڑھے بدن میں کینسر جیسا موذی مرض لئے جی رہا تھا اس کی بدقسمتی کہ اسے آخری ہچکی آئی بھی تو ان دنوں جب پوری دنیا کورونا وائرس کے خوف سے سہمی ہوئی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کر رکھا تھا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو سختی سے گھروں میں رہنے پر مجبور کر رہے تھے ،ان حالات میں بوڑھے روی شنکر کی آخری رسومات مسئلہ بن گئیں اس کی ارتھی کواسکے اپنے کاندھا دینے کوتیار نہ تھے ، بھارتی مصنفہ،کالم نگار زینب سکندر کے مطابق روی شنکر کے رشتہ داروں کو شک تھا کہ اسے کورونا ہوگیا ہے، روی شنکر کا بیٹاپرامود کبھی ایک کو فون کرتا اور کبھی دوسرے کو ،کبھی بہنوئی سے درخواست کرتا اور کبھی کسی اور سے کہ و ہ بوڑھے باپ کی ارتھی کو کاندھا دینے تو آئیں یہاں تو چار کاندھے پورے نہیں پڑ رہے لیکن پرامود کی ساری کوششیں رائیگاں جارہی تھیں کوئی آنے کو تیار نہ تھا پرامود کی یہ مشکل اسکے پڑوسیوں سے چھپی کیسے رہ سکتی تھی انہوں نے ایکدوسرے کی طرف دیکھا آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ بات کی اور پھر اک عجیب منظر دیکھنے کو ملا سفید ٹوپیاں پہنے نوجوانوں نے کورونا کا خوف روندتے ہوئے روی شنکر کی ارتھی کاندھے پر رکھی اور شمشمان گھاٹ کی طرف چل پڑے وہ راستے میں ’’رام رام ستیہ ہے ‘‘ بھی پکارتے جارہے تھے ،یہ ٹوپی پہنے او ر رام رام کے نعرے لگاتے ہوئے روی شنکر کی ارتھی کو شمشان گھاٹ پہنچانے والے سارے کے سارے کلمہ گو مسلمان تھے ،یہ سب روی چاچا کے پڑوسی تھے انہوں نے جب دیکھا کہ بوڑھے چاچا کی ارتھی کو کاندھا دینے کے لئے ان کا کوئی رشتہ دار آنے کو تیار نہیں تو انہوںنے آگے بڑھ کربوڑھے پڑوسی کی ارتھی کاندھوں پر رکھ لی او ر اسی طرح رام رام ستیہ ہے کے نعرے لگاتے ہوئے روی شنکر کے کریا کرم کا انتظام کرکے انسانیت کو شرمند ہ ہونے سے بچالیا۔ سفید ٹوپی والوں کے ہاتھوں روی شنکر کے کریاکرم کی وڈیو کلپ بھارت میں کورونا وائرس کے خوف کی طرح پھیل گئی جسے کروڑوں لوگوں نے دیکھا اور سراہا ہاں جنکی رگوں میں خون کی جگہ تعصب دوڑ رہا تھا ان کی پیشانی پر بل ضرور پڑے ان میں 81برس کے بوڑھے سبرامنیم سوامی بھی ہیں ،سوامی جی کو مسلمانوں سے پیدائشی خا ر ہے انہیں مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے عمر کے اس حصے میں جب کسی کو بھی شمشان گھاٹ صاف نظر آرہا ہوتا ہے وہ آگ لگاتے کہتے پھرتے ہیںکہ ہندوستان کو مسلمانوں کے وجود سے صاف کردینا چاہئے ،شائد اس غصے کی ایک وجہ ان کی بیٹی سوشانی کی ایک مسلمان سے شادی ہے جس کے بعد وہ سوشانی حیدر ہوچکی ہیں ،سوشانی حیدر بھارت کی جانی مانی صحافی ہیں ان کے پروفائل میں انگریزی اخبار دی ہندو کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر بھی تحریر ہے ،قدرت کی اس’’ سزا‘‘ پر انہیں توبہ تائب ہوجانا چاہئے تھا لیکن یہ متعصب سوامی جی مسلمانوں کے خلاف تیزابی بیانات سے باز نہیں آئے انہوں نے گذشتہ دنوں ایک امریکی نیوز چینل وائس نیوز کو اپنے گھر کے لان میں انٹرویو دیا اس دوران انہیں اپنے دھرم کے روی شنکر کی ارتھی اٹھائے سفید ٹوپی والے نوجوان یاد رہے نہ ایک ہندو کی لاش کا کریا کرم کرنے کے لئے شمشان گھاٹ تک جانے والے مسلمان ۔۔۔انہوں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ ان کے سامنے بیٹھی صحافی کون ہے اور وہ اسکے ذریعے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں ،ان کے بدبودار غلیظ انٹرویو پر دنیا میں سخت ردعمل دیا ہے سوائے ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ،بھارتی وزیر اعظم نے اس پر اک لفظ کہا نہ کسی اور نیتا جی نے ،وہ کہتے بھی کیسے کہ ان کے من کی مراد کو بوڑھے سوامی نے الفاظ کا روپ دیا ہے۔وائس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں سوامی نے کھل کر کہا کہ مسلمان خرابی کی جڑ ہیں ان کا کہناتھا ’’جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے وہیں پریشانی ہوتی ہے جن ممالک میں مسلمانوں کی آبادی تیس فیصد ہوجاتی ہے وہ خطرات سے دوچار ہوجاتے ہیں ‘‘۔ سوامی جی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا انہوں نے کہابھارتی آئین کی بھی غلط تشریح کی جاتی ہے برابری کے حقوق برابری والوں کو دیئے جاتے ہیں اس پر خاتون صحافی نے قدرے حیرت سے پوچھا کہ کیا مسلمان برابر نہیں ہیں ؟ اس پر سبرامنیم سوامی نے بنا کسی تردد کے صاف کہا ’’نہیںمسلمان نہ ہندؤںکے برابر ہیں اور نہ ہی مساوی حقوق کے حقدار‘‘۔سبرامنیم سوامی نے پہلی بار اپنے اندر چھپی نفرت کی قے نہیں کی وہ ایک عرصہ سے یہی کہتے چلے آرہے ہیں کہ مسلمان بھارت میں رہنے کے لائق نہیں ہندؤں کو چاہئے کہ انہیں دیوار سے لگا دیں ، 2011ء میں انہوں نے ایک بھارتی اخبار میں لکھے گئے کالم میں حکومت کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا جائے،اس بارے میں جب ان سے برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے رابطہ کیا تو ڈھٹائی سے کہا کہ میں نے جو بھی کہا ہے وہ آئین کے دائرے میں کہا ہے ،یہی سوامی صاحب آسام کے شہر گوہاٹی میں ایک تقریب کے دوران مسجدیں گرانے کی حمائت کر چکے ہیں ان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ مسجد محض عمارت ہوتی ہے کوئی مذہبی مقام نہیں اس لئے اسے کبھی بھی گرایا جاسکتا ہے ،اسی اسلام دشمنی پر انہیںپاکستان بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا یہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہئے ،ان کے ان بیانات کو دیوانے کی بڑ کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے نہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے ان کی سٹھیانے کی عمر کو بھی بیس برس گزر چکے ہیں وہ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں اور ان کے بیانات پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور حکومت کی خاموشی یا ان کی ذاتی رائے کہہ کر کنی کترا جانا صاف بتاتا ہے کہ وہ’’نئی دہلی ‘‘ کی ہی زبان بول رہے ہیںکوئی بھی انکے منہ پر ہاتھ رکھ کر بھاشا بولنے سے نہیں روک سکتا لیکن ہم شکر ضرور ادا کرسکتے ہیں کہ الحمداللہ ہم سوامیوں کے شر سے محفو ظ اپنے وطن میں ہیں جہاں کوئی سبرامنیم سوامی ہے نہ امیت شا!