بلوچستان ان دنوں دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ بدھ کے روز دہشت گردوں نے تربت کے قریب سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 5اہلکاروں کو شہید کر دیا‘ منگل کے روز بھی ایک ریلی میں ہونیوالے خودکش دھماکے میں تین اہلکاروں سمیت 8افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ان دو حملوں سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ صوبے میں پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بنظرغائردیکھا جائے تو صوبہ بلوچستان میں کوکوئٹہ‘تربت سمیت کئی علاقے طویل عرصہ سے دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہیں‘ ماضی میں بھی غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے اور شدت پسند ی کے پھر سے منظم ہونے کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔تاہم دہشت گردی کیخلاف کئے جانیوالے آپریشنوں سے دہشت گردوں کی ایسی کئی مذموم کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تشدد کی کارروائیوں کا تسلسل بلوچستان میں ترقی اور سرمایہ کاری کو ناکام بنانے کی سازش ہے‘ دہشت گردی کے اس تسلسل کو توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے مابین رابطوں کو مضبوط بنایا جائے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو چاہیے کہ وہ تشدد کی اس تازہ لہر سے نمٹنے کیلئے جامع حکمت عملی بنائیں اور کوئٹہ اور تربت سمیت بلوچستان کے زیادہ حساس اضلاع پر کڑی نظر رکھیں۔ حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں۔