موسم شدید سرد اور امسال ٹھنڈ کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں لیکن سیاسی درجہ حرارت کم ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع اور اس ضمن میں قانون سازی کرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے ۔ حکومت کی لیگل ٹیم کے مطابق عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں متعدد سقم ہیں اورغالباً ان کی رائے میں ریویوپٹیشن میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اسی بینچ کا حصہ تھے جس نے فیصلہ سنایا۔ شاید اسی لیے اس پٹیشن کی سماعت کے لیے بڑا بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے ۔معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کے مطابق یہ فیصلہ عوامی مفاد میں کیا گیا ہے گویا کہ فی الحال قانون سازی کے آپشن کو موخر کر دیا گیا ہے کہ شاید اس کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔پہلے پہل مبصرین کا خیال تھا کہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں قانون سازی کے لیے حکمران جماعت کو اپوزیشن کے ساتھ سلسلہ جنبانی بڑھانا پڑے گا اور انتقامی کارروائیوں پر قدغن لگانا پڑے گی لیکن ایسی توقعات نقش برآب ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ حکومت کسی قیمت پر بھی ’’کرپٹ‘‘ اپوزیشن کیساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہے ۔بظاہر خان صاحب نے اب بھی ایکسیلیٹر پر پاؤں دبایا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ملے جلے سگنلز مل رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں جانے کے جھنجٹ سے بچنا چاہتی ہے ۔ ادھر نیب نے مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو زبردستی کرپشن کے الزامات لگا کر گرفتار کر لیا بعدازاں یہ وضاحت کی گئی کہ ان پر کرپشن نہیں بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے ۔بلاول بھٹو کو بھی اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں جلسے کے انعقاد کی اجازت کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹانا پڑا حالانکہ یہ روٹین کا معاملہ تھا ۔ نیب نے بے نظیر بھٹوکی برسی کے دنوں میںہی بلاول بھٹو کو پیش ہونے کے لیے بلاوا بھیج دیا ہے جس پر انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اب وزیر مملکت برائے داخلہ بھی مقرر ہو گئے ہیں،اس کے ساتھ ہی واجد ضیا کو ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارہ مقرر کر دیا گیا ۔یک نہ شد دو شد کے مصداق اب ایف آئی اے بھی اپوزیشن کے خلاف متحرک ہو گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ پر چھاپہ بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے۔ سابق وزیر مفتاح اسماعیل جنہیں ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ نتھی کیا گیا تھا کی رہائی عمل میں آ گئی ہے لیکن سب سے دلچسپ کیس رانا ثناء اللہ کا ہے جنہیں اینٹی نارکوٹکس فورس نے موٹرویز کے سکھیکی انٹرچینج پر گرفتار کیا تھا ۔اس پر وزیر انسداد منشیات شہر یار آفریدی نے اے این ایف کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل عارف ملک کے ساتھ پریس کانفرنس میں بہت بغلیںبجائیں اور دعویٰ کیا گیا کہ رانا صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، وہ اپنی گاڑی میں تقریباً 21 کلو ہیروئن لا رہے تھے ۔شہر یار آفریدی بار بار اللہ کو حاضر وناظر کہہ کر بات کرتے ہیں، اب ان کا کہنا ہے کہ راناثناء اللہ کے خلاف ثبوت انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ آفریدی صاحب نے چھ ماہ کے دوران رانا ثناء اللہ کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی اور دعوے کئے کہ یہ کھلا کیس ہے اور واقعی رانا ثناء اللہ ڈرگ سمگلر ہیں، اب منہ کی کھانے کے بعد بھی اپنے موقف پر ڈھٹائی سے کیسے قائم ہیں ۔ اپنے ان دعوؤں کی تائید میں کہ رانا ثناء اللہ کی ویڈیو اے این ایف کے پاس موجود ہے انھوں نے یہ انوکھی منطق اختیار کی کہ انھوںنے ویڈیو کی کبھی بات نہیں کی بلکہ وہ فوٹیج کی بات کرتے رہے ہیں ۔وہ خود اور معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان میڈیا کو یہ سمجھانے کے لیے پورا زور لگارہے تھے کہ فوٹیج اور ویڈیو میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ان کے مطابق فوٹیج تو نگران کیمروں کی ہوتی ہے جبکہ ویڈیو کسی خاص مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کے پاس رانا ثناء اللہ کی ویڈیو ہے اور نہ ہی فوٹیج ۔ اس معاملے میں لاہور ہائیکورٹ نے رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت کی منظوری کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے جو وزیر موصوف اور اے این ایف کے لیے کوئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں ہے ۔ تفصیلی فیصلہ لکھنے والے فاضل جج جسٹس مشتاق احمد کے مطابق استغاثہ اپنے کیس کی تائید میں کوئی شواہد پیش نہیں کر سکا ۔مثال کے طور یہ بالکل واضح ہے کہ منشیات برآمدگی کا دعویٰ کرنے کے باوجود جائے وقوعہ سے ریکوری کی کوئی رسید موجود نہیں ہے پھر یہ الزام لگایا گیا کہ رانا ثناء اللہ کی کئی ہفتوں سے نگرانی ہو رہی تھی کہ وہ منشیات کے بہت بڑے سمگلر ہیں لیکن یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ وہ سمگلنگ کا بہت بڑا نیٹ ورک چلا رہے تھے ۔فیصلے میں اس پر بھی حیرانگی کا اظہا ر کیا گیا ان کو تھانے لے جا کر دستاویزی کارروائی پوری کرنے کی کوشش کی گئی اور دلچسپ بات ہے کہ 21 کلو گرام ہیروئن سے بھرا ہوا سوٹ کیس جو اے این ایف کے مطابق رانا ثناء اللہ کی گاڑی میںپڑا تھا،اینٹی نارکوٹکس کے تھانے میں پیش کیا گیا اور پھر یہ جواز بنایاچونکہ ٹول پلازے پر لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لیے سوٹ کیس تھانے میں پیش کیا گیا جو ناقابل یقین ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار حکومت پر برملا تنقید کرنے والے اپوزیشن لیڈر ہیں، اس لیے کیس کا یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں سیاسی انتقام کی روایت کوئی راز نہیں ہے، اسی بنا پر عد الت نے استغاثہ کے کیس کو مشکوک قرار دیا ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ وزیر اینٹی نارکوٹکس کا منہ بند کر نے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ لیکن افسوسناک بات جو اب سوالیہ نشان بھی ہے کہ اے این ایف جس کی سربراہی ایک میجر جنرل کرتے ہیں اور اس میں کئی بریگیڈیئر اور دیگر فوجی افسر خدمات انجام دیتے ہیں ،وہ اس سیاسی انجینئرنگ اور ڈھکوسلے میں کیونکر شریک ہو گئے گویا کہ جیسا کہ میں ’92نیوز پر‘ اپنے پروگرام ’ہوکیا رہا ہے ‘ میں کئی بارکہہ چکا ہوں اس کیس کو بھی وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں چودھری ظہور الٰہی کی بھینس چوری کے مقدمے میں گرفتاری کی طرح سیاسی انتقام کی بدترین مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔عدالتوں کو برا بھلا کہنے اور ملفوف انداز میں الزام لگانا کہ عدلیہ طاقتور کو چھوڑ د یتی ہے کے بجائے حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے ۔ عدالتوں سے سر پھٹول ہر سیاسی حکومت کو مہنگی پڑی ہے ۔چیف جسٹس سجاد علی شاہ ججز کیس کے مابعد بے نظیر بھٹو کی چھٹی کرانے میں بخوشی فریق بن گئے تھے ۔بے نظیر بھٹو ،میاں نوازشریف سمیت سب حکمرانوں کو عدلیہ سے پنگا لینا مہنگا پڑا ۔حتیٰ کہ آمر پرویز مشرف نے بھی عدلیہ سے تصادم میںگھاٹا ہی کھایا۔اب بھی عدلیہ پر بلا جواز ٹھونگے مارے جا رہے ہیں ۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان کی یہ دلیل انوکھی ہے کہ ڈرگ مافیا اور دیگر سیاستدان بڑے بڑے مہنگے وکیل کر لیتے ہیں اور حکومت کے سرکاری وکیل غریب غربا ہوتے ہیں اور حکومت پچاس ہزار سے زیادہ فیس نہیں دے سکتی حالانکہ حکومت کے پاس تو بہت وسائل ہوتے ہیں وہ کسی بھی مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔ اب شاید انھیں امید ہے کہ نئے چیف جسٹس گلزار احمد کے آنے کے بعد آرمی چیف کی توسیع کیس میںان کو نظرثانی کی اپیل میں ریلیف مل جائے گا لیکن قانونی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی بہت کم مثالیں موجود ہیں کہ عدلیہ اپنے ہی فیصلے کو نظرثانی میں ختم کر دے بالخصوص جبکہ موجودہ چیف جسٹس بھی فیصلہ کرنے والے کیس میں شامل تھے۔ لہٰذا حکومت نظرثانی درخواست میں جانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا آپشن کھلا رکھے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے صرف نظر نہ برتا جائے اور اس حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کر کے قانون سازی یا آئینی ترمیم کے لیے مناسب ماحول بنایا جائے ۔