جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ آپ نے شائد نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں برادر ِ عزیز رمضان بلوچ سے آشنائی تو برسہابرس سے تھی۔ مگر تفصیلی تعارف ان کی کتاب’’ لیاری کی ادھوری کہانی ‘‘سے ہوا۔اور اب میرے ہاتھ میں ان کی تازہ ترین کتاب ’’روشن بلوچ‘‘ ہے جسے بڑے پیارسے ہمارے کامریڈ واحد بلوچ نے اپنے ادارے مشانگ فاؤنڈیشن سے شائع کیا ہے۔ یہ وہی دوستوں کے لئے مشہور زمانہ اور ’’فرشتوں‘‘ کیلئے بدنام ِ زمانہ کامریڈ ہیں جو سال دو پہلے ’’لاپتہ افراد‘‘ کی فہرست میں اپنا نام سنہری لفظوں میں شامل کر چکے ہیں۔ہمارے دوست رمضان بلوچ کو ان کی جرأت کی پیکر بیٹی حانی بلوچ اور اُن کے کامریڈ ساتھیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جس کے سبب کامریڈ واحد بازیاب ہوگئے اور پھر جن کی مساعی سے بلوچستان کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی زندگی کے روشن چہروں کی بے پناہ جد و جہد اور المناک داستانوں کو سمیٹتی کتاب ’’بلوچ روشن چہرے‘‘ کی اشاعت ممکن ہوسکی۔سو کامریڈ واحد کو اللہ حیاتی دے، ورنہ سینکڑوں ’’لاپتہ بندوں‘‘ کی طرح یہ کتاب بھی تاریخ کے گمشدہ اوراق کی نذر ہوجاتی ۔کامریڈ واحد کی زندگی اور جدوجہد کیلئے ایک الگ مضمون باندھنا ہوگا۔واجا رمضان بلوچ نے لیاری اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جن 42شخصیات کے شخصی خاکے کھینچے ہیں ان میں یقینا اکثر بلکہ بیشتر اپنی زندگی میں ہی دیو مالائی کردار بن گئے تھے۔میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری،سردار عطا اللہ مینگل اور ہاں، ہمارے پیارے شاعر عطا شاد۔۔۔ہئے ،ہئے۔۔۔ عطا شاد شاعر کیا تھے ،ایک دبستاں تھے۔ رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے واجا رمضان نے اپنی کتاب میں لیاری سے تعلق رکھنے والے جن روشن چہروں کا ذکر کیا ہے اُن کے ساتھ اس جماعت نے ، میری مراد پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، اورجنہیں وہ چار دہائی تک جھولی بھر بھر کے ووٹ دیتے رہے۔۔۔وہ سلوک کیا کہ پھر چار دہائی بعد لیاری کے جیالوں نے ہی اُس کا تاریخی بدلا بھی ایسا لیا کہ بھٹو خاندان کے چار دہائی سے گڑھ میں اس خاندان کی تیسری پیڑھی کے نوجوان بلاول بھٹو زرداری دوسرے نہیں،تیسرے نمبر پر آئے اور اس پر بھی المیہ یہ ہے کہ بھٹو خاندان پر جان دینے والے لیاری میں اس المناک شکست پر ایک آنکھ بھی آنسو بہانے والی نہ تھی۔اور پھرپیپلز پارٹی پر ہی کیا منحصرہے،دوستوں سے معذرت کے ساتھ کہ جو جماعت بابائے بلوچستان کی گود میں پروان چڑھی تھی، یعنی نیشنل پارٹی ،اُس نے بھی لیاری کے روشن بلوچ چہروں کے ساتھ اپنے دورِ اقتدار میں کوئی مہربانہ رویہ نہ رکھا ۔اور پھر اُس سے زیادہ اس سفاک معاشرے اور بے حس لوگوں نے بھی جو ناروا سلوک لیاری کے روشن بلوچ چہروں کے ساتھ کیا ،وہ اپنی جگہ خود ایک خونچکاں داستان ہے۔ بجا طور پر رمضان بلوچ جب اپنے لالہ لعل بخش رند، یوسف ، سید ظہور ہاشمی ،مراد ساحر، صبا دشتیاری ،لالہ گل محمد ہوت،یار محمد یار، جی آر ملا، اکبر بارکزئی ،صدیق بلوچ کو یاد کررہے ہوں گے۔۔۔تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے اپنے شعبوں کی ان نامور ہستیوں کی داستان ِ زندگی کا ورق الٹتے ہوئے ان کی انگلیاں فگار ہوں گی۔ یار عزیز مجید بلوچ یہاں بیٹھے ہیں۔70کی دہائی میں ان کے تعلق سے لالہ لعل بخش رند کے حلقے کا اسیر ہوا۔ چھ فٹ سے اونچے قد لئے ۔سرخ سفید چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ،لالہ جب اپنی زندگی کے بیشتر ماہ و سال اسیری اور جلاوطنی میں گزار کر واپس لیاری لوٹے تو ایک دنیا بدل چکی تھی۔لالہ کے بیشتر شاگرد بلند و بالا کوٹھیوں ،اعلیٰ عہدوں،مشیروں ،وزیروں کی کرسیوں پر مسند نشین تھے اور خود لالہ رند،ہڈیوں کا ڈھانچہ لئے وہیل چیئر پر جسے وہ اپنے لرزیدہ ہاتھوں سے بھی خود گھسیٹ رہے ہوتے۔۔۔ہئے ہئے کوئٹہ میں سرکار میں بیٹھی لالہ کی پارٹی کو اطلاع بھی دی ۔ مگر ’’جاتی امرائ‘‘ کو قبلہ و کعبہ بنانے والوں تک لالہ کی صدا کہاں پہنچتی۔کہ بدقسمتی سے سیاسی دشمنیاں ہماری لیفٹ کی پارٹیوں کے اندر ہی نہیں ہمارے گھروں اور رشتوں تک میں سرایت کر گئی ہیں۔سفاکی دیکھیں کہ رازق بگٹی شہید ہوئے تو دوستوں نے چند قدم چل کر پُرسہ نہیں دیا۔کیا بھٹو کے ہاتھ بلوچوں کے خون سے نہیں رنگے تھے کہ جن کے آستانوں پر دست بستہ جا کر اصولی سیاست بھینٹ چڑھا دی جاتی رہی۔لالہ لعل بخش رند ۔۔۔لیاری کا شہزادہ تھا۔جس کی داستان لکھتے ہوئے واجا رمضان بلوچ کا قلم ضرور لہو لہان ہوا ہوگا۔واجا رمضان بلوچ نے لیاری کے اُن تمام انقلابی شہزادوں کی بڑی محبت سے ’’زیب داستاں‘‘ رقم کی ہے۔کہ جنہیں یہ سفاک معاشرہ تو کیا خود لیاری والے بھی بھول گئے ۔ واجا رمضان بلوچ نے یہ کتاب لکھ کر اُس قرض کو اتارنے کی کوشش کی ہے کہ مجھ جیسے ’’بلوچ دوست‘‘ ہونے کے دعویدار پر واجب تھا۔ اور ہاں واجا رمضان بلوچ ،آپ کی شخصیت میں جو شرافت اور انکساری ہے وہ آپ کی تحریر میں بھی جھلکتی ہے۔آپ کی تحریر میں سرداروں ،نوابوں والی انا نہیں۔جو تیسری ،چوتھی پیڑھی تک بھی بدلہ لینا نہیں بھولتے ۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ دفنانے کے بعد ’’کفن ‘‘ نہیں کھولے جاتے۔مگر تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے ۔ہمارے اور آپ کے لئے قابل صد احترام نواب خیر بخش کا ذکر کرتے ہوئے بھی واجا آپ نے اپنی روایتی شرافت اور منکسر المزاجی کا پاس رکھا۔میرا یہ مقام ہر گز نہیں مگر نواب خیر بخش مری کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے بعد آپ کو شیر محمد مری کا بھی قرض اتاردینا تھا کہ جب نواب صاحب کے اس جنرل سے اُن کے آخری دنوں میں کراچی کینٹ کے ہوٹل کے ایک چھوٹے سے کمرے میںملاقات ہوئی تو وہ اپنی کرسی پر ایک ہارے ہوئے سپاہی کا ’’نوحہ‘‘ بنا بیٹھا ۔۔ ۔اُس ٹی وی اسکرین کو دیکھ رہا تھا ۔ جس میں نواب صاحب کے صاحبزادگان لیگی حکومت میں کا قلمدان ِ وزارت پر دستخط ثبت کر رہے تھے ۔ یہ لیجئے ۔۔۔تحریر آخری دموں پر ہے ۔۔۔واجا رمضان بلوچ کی کتاب کی رونمائی کے جشن میں ، میں یہ افسردگی نہ لاتا تو بہتر تھا۔مگر بلوچ روشن چہرے محض 42خاکوں کا مجموعہ نہیں ۔ ایک دستاویز ہے ۔تاریخی دستاویز ۔ (آرٹس کونسل میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)