گوادر میں مختلف منصوبوں کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے بلوچ عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بلوچستان کی معاشی محرومیوں کے خاتمہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ امن و استحکام کے لیے عسکریت پسندوں سے بات چیت ایک مثبت فیصلہ ہے تاہم اس فیصلے سے منسلک جزئیات قدرے پیچیدہ اور مشکل ہیں جن کے لیے وزیراعظم کو سکیورٹی اداروں‘ مقامی آبادی‘ بلوچ نمائندوں اور مثبت فکر کے حامل دیگر طبقات سے مشاورت کی ضرورت ہوگی۔ یہ عمل خوش اسلوبی سے انجام پا سکے توبات چیت کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے کر معاملے کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کوجب پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا تو کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں خیر مقدمی فضا دیکھی گئی۔بلوچ عوام شاداں تھے ، خان آف قلات نے پاکستان کی حمایت کی لیکن ان کے بھائی آغا عبدالکریم مخالفت میں ایک مسلح گروپ ترتیب دے کرجھالاوان کی پہاڑیوں پر جا بیٹھے۔ بعد میں آغا عبدالکریم افغانستان چلے گئے‘ 1958ء کے لگ بھگ بلوچ عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اس بار خان آف قلات نے عسکریت پسندوں کا ساتھ دیا تاہم ان خدشات کا پتہ نہ چلایا جا سکا جن کی وجہ سے خان آف قلات نے علیحدگی پسندوں کی حمایت کی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سب سکندر مرزاکی سازش تھی جو ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے بہانے تلاش کر رہے تھے۔ اس مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لیے سکیورٹی اداروں کو سخت کارروائی کرنا پڑی۔ 1970ء میں ون یونٹ کا خاتمہ ہوا۔ بلوچستان کو پہلی بار صوبے کا درجہ ملا۔ یہ موقع تھا جب ناراض بلوچوں اور ریاست کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا جاتا۔ برسراقتدار پیپلزپارٹی نے بلوچستان کی حکومت ختم کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چار برس تک نیپ کی قیادت کو قید رکھا۔ اس دوران شدت پسند بلوچ نوجوانوں کو پوری آزادی ملی کہ وہ افغانستان سے فکری و عسکری امداد لے کر صوبے کے محب وطن سرداروں‘ نوجوانوں اور شہریوں کی جمہوری سیاست کا راستہ روک دیں۔ ان ہی عسکریت پسندوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ بلوچوں کی محرومیوں کا واحد حل ریاست پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ ہے۔ بلوچستان میں کتنے ناراض بلوچ ہیں اور ان کے مختلف گروپوں کے الگ الگ مطالبات کیا ہیں ان کا جائزہ لینے کے بعد ہی معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ جبکہ آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا ہے۔ اس کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد افغانستان اور ایران سے ملحق ہے۔ صوبے میں معدنیات کی دولت ہے۔ اس کا محل وقوع خطے کے ہر ملک کی دلچسپی کا باعث ہے۔ 2008ء کے بعد قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے ایک ترقیاتی و آئینی منصوبہ پیش کیا۔اس پیکج میں صوبائی خود مختاری اور ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔ بعد ازاں اٹھارویں ترمیم میں یہ وعدے پورے کئے گئے ،ناراض بلوچوں کو موقع دیا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوں۔ 2013ء میں مسلم لیگ ن مرکز میں برسراقتدار آئی تو بلوچستان میں ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے مل کر حکومت تشکیل دی۔ پہلے اڑھائی سال کے لیے عبدالمالک بلوچ اور دوسری نصف مدت کے لیے ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ عبدالمالک بلوچ نے قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز پیش کی۔ اس دوران نچلی سطح کے بعض کمانڈروں اور عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا لیکن ڈاکٹر اللہ نذر‘ ہربیار مری‘ براہمداغ بگٹی جیسے علیحدگی پسند امن کا راستہ قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ سڑکیں ہیں نہ ہسپتال‘ سکول ہیں نہ پینے کا پانی‘ ملک کے دوسرے علاقوں سے اگر کوئی درد دل رکھنے والا ڈاکٹر یا استاد ادھر آ جائے تو وہ اغوا ہو جاتا ہے‘ کئی مارے گئے۔ یوں بلوچوں کو مسلسل محرومیوں کا شکار رکھنے کی ایک سازش رچائی گئی ہے جس کی بنیاد پر محرومیوں کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا بڑا حصہ سی پیک منصوبوں سے استفادہ کے قابل بنایا جا چکا ہے‘ شاہراہیں‘ صنعتی زون‘ گوادر بندرگاہ‘ ڈیری و لائیوسٹاک اور زراعت کے بہت سے منصوبے ہیں جو مقامی آبادی کو روزگار دے سکتے ہیں۔ محرومیاں ختم کرسکتے ہیں‘ اس ترقی سے بلوچ عوام کو انصاف کا بہتر نظام مل سکتا ہے‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ ماضی میں صرف ان علاقوں پر توجہ دی گئی جہاں سے انتخابی کامیابی کی امید تھی۔ بلوچستان کے ساتھ مرکز اور صوبے کے سیاستدانوں کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں رہا۔ اب جبکہ خطہ بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں روپوش رہ کر پاکستان کی سرزمین پر کارروائیاں مشکل ہو جائیں گی۔ حالیہ دنوں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بلوچستان کے بعض علاقوں میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن کئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بین الاقوامی تنازعات میں یہ موقف رہا ہے کہ لڑائی کی بجائے معاملے کوبات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ناراض بلوچ اگر ریاست کی عملداری تسلیم کرلیں تو حکومت کو ان کے مطالبات کھلے دل سے سننے کی ضرورت ہے‘ بلوچستان کی محرومیاں لڑائی سے دور نہیں کی جا سکتیں‘ نہ ہی کسی بیرونی مدد سے بلوچ حقوق کا تحفظ ہو سکتا ہے۔ حقوق کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اگر آئینی فریم ورک کے اندر رہ کر ناراض بلوچوں‘ علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا بامقصد ایجنڈہ ہے تو انہیں ضرور اس کا آغاز کرنا چاہیے۔