قانون نافذ کرنے، امن و امان قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی بنیادی اصول ہے کہ آپ اس قوم، قبیلے یا عوام کے مزاج سے آشناہوں، روایات سے واقف ہوں اور جرم و سزا کے معیارات کا ادراک رکھتے ہوں، تو پھر آپ وہاں اپنا حکومتی اختیار بحسن و خوبی نافذ کر سکتے ہیں۔ قانون کے علم کی پہلی کتاب جو دنیا کی ہر یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے وہ اصولِ قانون (Jurisprudence) سے متعلق ہوتی ہے جس کا عمومی طور پر پہلا فقرہ یہ ہوتا ہے’’Law Stems Out Of The Norms And Mores Of The Society‘‘۔ یعنی ’’قانون لوگوں کے رسم و رواج سے جنم لیتا ہے‘‘۔ کوئی بھی قانون خواہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو، اگر لوگوں کے رسم ورواج سے متصادم ہوگا تو اس کے خلاف مزاحمت ایک نہ ایک دن ضرور اٹھے گی۔ بلوچستان میں ایسا بار بار ہوا اور حکمرانوں نے اپنی بے وقوفیوں کا بار بار ارتکاب کیا۔ بلوچ قوم کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں انگریز کا دور ایک ایسا استثنا ہے کہ جس دور میں بلوچ قوم نے اپنے سرداروں کی قیادت میں انگریزوں کا بھرپورساتھ دیا اور اس کی عملداری میں باقاعدہ اینگلو افغان جنگ میں ممدومعاون رہے۔ انگریز نے بلوچ اور پشتون عوام پر یہ اقتدار اس طرح کی فوج کشی کرکے حاصل نہیں کیا تھا، جیسی فوج کشی پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخواہ کے عوام پر کی گئی اور انہیں فتح کیا گیا۔ انگریزوں نے جب سندھ اور پنجاب فتح کرکے ان علاقوں میں اپنے ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے حکومت مستحکم کرلی، تو انہیں ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد کے بلوچ قبائل، مزاری، بزدار، گورچانی، قیصرانی، کھوسہ، دریشک، لغاری، جمالی، بلیدی، بجارانی اور جھاکرنیوں کے رسم و رواج کا براہِ راست مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اس مطالعے کے بعد انگریز نے بلوچستان کے متعلق اپنی پالیسیاں بنائیں۔ سندھ کے ملحقہ علاقوں کا ڈپٹی کمشنر ’’سرولیم میری ویدر‘‘ (Sir William Merewether) تھا جبکہ پنجاب کے ملحقہ علاقے ڈیرہ غازی خان کا ڈپٹی کمشنر ’’رابرٹ سنڈیمن‘‘ (Robert Sandemon) تھا۔ میری ویدر کی پالیسی یہ تھی کہ بلوچستان پر فوج کشی کی جائے۔ پہلے اس کی پالیسی مانی گئی اور ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ جو شخص کسی مری یا بگٹی کا سر کاٹ کر لائے گا اسے دس روپے فی سر دئیے جائیں گے اور اس نے فوج کشی کے لئیے شاہ پور میں ایک چھاؤنی بھی قائم کردی۔ اس کے برعکس رابرٹ سنڈیمن نے انگریز سرکار کے سامنے ایک فاروڈ پالیسی پیش کی کہ کیسے سرداروں کو ساتھ ملا کر ہم پورے علاقے پر بغیر فوج استعمال کئے حکومت کر سکتے ہیں۔ میری ویدر کی برطانوی فوج مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے تو رابرٹ سنڈیمن کو بلوچستان میں آگے بڑھنے کا اختیار مل گیا۔ اس نے ایک ذہین اور کایاں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے نواب امام بخش مزاری اور نواب جمال خان لغاری کے توسط سے قریبی علاقوں کے مری، بگٹی اور کھیتران سرداروں سے تعلقات بنائے اور پھر بلوچستان کے ان سرداروں کے ذریعے تمام بلوچ سرداروں سے ایسے گرم جوش اور شاندار تعلقات بنائے کہ جب وہ یکم جنوری1876ء کو خان آف قلات کے دربار میں اس سے ملنے گیا تو اس کی قیادت میں تمام بلوچ سردار ایک جلوس کی صورت دربار میں داخل ہوئے۔ ان سرداروں میں ملا محمد خان رئیسانی، سردار اللہ ڈینہ کرد، شادی خان بنگلزئی، محمد سید خان محمد شہی، جندہ خان شہوانی، میراللہ خان تمندارمری، میرہزار خان مری، گل محمد خان تمندارمری، کرم خان بجارانی مری، نال خان لوہارانی مری، گوہر خان پسر تمندار بگٹی، ہیبت خان مسوری بگٹی، فتح خان نوتھانی بگٹی، روگیہ خان کلپر، بلوچ خان کھیتران اور دین محمد خان بزدار شامل تھے۔ خان آف قلات کے ساتھ دربار میں صرف دو سردار باقی رہ گئے، سردار نوردین مینگل اور سردار قیصر خان موسیانی۔ سرداروں کی اتنی بڑی وفادار اکثریت کی وجہ سے ایک ایسا معاہدہ ہوا جس کے تحت اگر خان اور سرداروں کے درمیان کوئی ایسا تنازعہ ہو جو ملک کے لئے امن و امان کا مسئلہ بن جائے تو پھر اس تنازعہ میں حکومتِ برطانیہ ثالث ہو گی اور اسی کا فیصلہ سب کو ماننا پڑے گا۔ یوں ایک قطرہ خون بہائے بغیر پورے بلوچ علاقے پر انگریز کی عملداری شروع ہوگئی۔ انگریز نے بلوچ رسوم و رواج کے مطالعے کے بعد، ایسا قانون نافذ کیا جو پورے ہندوستان سے مختلف مگر بلوچ روایات او ررسم و رواج کے عین مطابق تھا۔ اس قانون کے نفاذ کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بلوچستان میں کبھی بھی امنِ عامہ یا مزاحمت کا کوئی مسئلہ سر نہ اٹھا سکا۔ اب انگریز نے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی طرح انعامات کا آغاز کیا اور یہاں کے سرداروں کو بھی القاب، خطاب، مجسٹریٹی، مشاہرے اور اعزاز ئیے عطا کرنے شروع کر دئیے۔ ان مشاہروں کو تمام سردار آج بھی انتہائی خوش دلی سے ڈپٹی کمشنروں سے وصول کرتے ہیں۔ پہلی برطانیہ افغان جنگ جو 1839ء سے 1842ء تک ہوئی اس میں اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دینے والے چھ سرداروں سردار رئیسانی، سردار شاھوانی، وڈیرہ بنگلزئی، سردارمحمد شہی، سردار لہڑی اور سردار کرد کے لئے انگریز سرکار نے 300 روپے ماہوارالاؤنس مقرر کئے جنہیں ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس کہا جاتا ہے۔ دوسری افغان جنگ کے آخر میں جب گندمک معاہدہ ہوا تو پشین، لورالائی، ہرنائی، سبی اور ژہوب کے علاقے بھی انگریز کی عملداری میں آگئے، ان علاقوں کے ساتھ خان آف قلات سے اجارے پر لئے گئے کوئٹہ، نوشکی اور بولان کے علاقوں کو ملا کر برٹش بلوچستان کا صوبہ بنایا گیا جو افغانستان کے ساتھ ایک بفرزون تھا۔ اب انگریز سلطنت وسیع ہوچکی تھی اور نئے نئے سردار اس کا حصہ بن چکے تھے۔ انگریز نے ان سرداروں کے لئے بھی ماہانہ مشاہرے اور الاؤنس مقرر کئے، جو درج ذیل تھے۔ نواب مری(300/-)، نواب بگٹی (300/-)، نواب جوگیزی (400/-)، سردار سنجرانی (350/-)، ارباب کاسی(350/-)، سردار ذگر مینگل(300/-)، سردار پانیزئی(240/-)، سردار ناصر(218/-)، سردار باردزئی(108/-)، سردار لونی(125/-)، سردار زرکون(75/-)اور سردار موسیٰ خیل(60/-)روپے ماہانہ۔ برٹش بلوچستان اور ریاستِ قلات دونوں علاقوں سے مراعات حاصل کرنے والوں میں 73 نواب اور سردار شامل تھے جن میں 60 بلوچ اور 13 پشتون تھے۔ ملک، معتبر، شاہی جرگہ کے وہ اراکین، اپنی قبائلی حیثیت کی وجہ سے وظائف لیتے تھے ان میں 901 بلوچ اور 2094 پشتون تھے۔ اسی طرح انگریز نے کچھ وفاداروں کو ذاتی حیثیت سے بھی وفاداری کے اعتبار سے منتخب کیا تھا ان کی تعداد 3300 تھی جن میں 2229 پشتون اور 1031 بلوچ تھے۔ ان اعزازات اور الاؤنسوں میں کچھ موروثی اعزازیے تھے اور کچھ ذاتی اعزازیے اور الاؤنس۔ موروثی اور خاندانی اعزازیوں میں بلوچ زیادہ تھے جو ان کی خاندانی حیثیت پر دئیے جاتے تھے، یعنی ان کی تعداد 117 تھی اور پشتون کم تھے یعنی 61 ۔ جب کہ ذاتی حیثیت میں انگریز کی نمک خواری کی بنیاد پر دئیے جانے والے اعزازیوں میں پشتون بلوچوں سے دوگنا تھے یعنی 2168 پشتون اور صرف 914 بلوچ تھے۔ یہ تمام اعزازات، مشاہرے اور الاؤنس پاکستان بننے کے بعد سے لے کر 1976ء کے سرداری کے خاتمے کے آرڈینس تک جاری رہے۔ اسی دوران عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کی قوم پرست حکومت بھی قائم ہوئی مگر کسی نے انگریز سے وفاداری کے الاؤنس ختم نہ کئے۔ بھٹو نے بھی 1976ء میں سرداری نظام تو ختم کردیا لیکن ان اعزازات اور مشاہروں کو برقرار رکھا اور یہ آج بھی برقرار ہیں۔ انگریز کے دورِ اقتدار میں رسوم و رواج کا قبائلی قانون اور ان اعزازات اور مشاہروں کی ’’برکات‘‘ ہی تھی کہ کبھی تحریکِ مزاحمت نہیں اٹھی اور کبھی امنِ عامہ کا مسئلہ نہیں پیدا ہوا۔ لیکن قیامِ پاکستان کے صرف دس ماہ بعد ہی 16 مئی 1948ء کو پرنس عبدالکریم کی مزاحمتی تحریک کیوں شروع ہو گئی۔ بلوچ قوم کی تاریخ میں اس کا جواب موجود ہے۔(جاری ہے)