بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟اس موضوع پر مجھے ایک کتاب کے لیے اپنی رائے دینے کا کہا گیا، جو کہ بس ایک دو پیرا گراف میں بیان کرنا تھی۔ ایک طرف پیراگراف کی پابندی اور دوسری طرف بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے اتنے ہی بڑے اور پیچیدہ مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بلوچستان کی جو اس وقت صورت حال ہے جو امن و امان کا مسئلہ ہے، بیرونی قوتوں کی مداخلت ہے، پسماندگی اور احساس محرومی ناراض بلوچوں کی تحریک یہ سب مسائل ایسے ہیں کہ جیسے ریشم کے دھاگوں کا گچھا آپس میں الجھ گیا ہو۔ کچھ اس طرح کہ اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کروں؟ بہرحال اس مسئلہ کو پھر نئے سرے سے سمجھنے کے لیے میں نے ایک تو ان لوگوں سے بات کی جو پنجابی تھے اور بلوچستان سے جنہیں عدم تحفظ کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی دوسرا ایک دو بلوچ بھائیوں سے بھی بات ہوئی۔ دھرتی کے ان بیٹوں کے لہجے شکایتیوں سے بوجھل ہیں اور ان کے الفاظ میں وفاق اور مقتدرہ قوتوں کے خلاف بہت کڑواہٹ ہے۔ لہجوں میں جھانکتی اور لفظوں میں بولتی کڑواہٹیں ایسی ہیں کہ جنہیں احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا اس لیے کہ یہاں اظہار پر کئی قسم کی قدغنیں ہیں۔ کوئی دربار اتنے مقدس ہیں کہ ان پر سوال نہیں اٹھائے جا سکتے۔ بلوچستان سے ہجرت کرنے والوں میں میرے عزیز بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2008ء سے 2011کے دوران کوئٹہ سے ہجرت کی اور اپنے کاروبار گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد اور لاہور میں شفٹ ہوئے۔ سردار اکبر بگٹی کا مشرف دور میں قتل، ایک ایسا سانحہ ہوا کہ، دہائیوں سے بلوچستان میں رہنے والے پنجابیوں کے لیے بلوچستان کی زمین تنگ ہو گئی۔ اس دور کے بعد وہاں پنجابی ہونا ایک جرم قرار پایا اور اس کی سزا موت کی صورت بھگتنا پڑتی یا پھر پنجابیوں کو اٹھا کر غائب کر دیا جاتا۔ چند سال پیشتر مجھے اپنے سسرالی خاندان کی ایک تقریب میں شرکت کرنا پڑی جو بنیادی طور پر خاندان کی ایک بزرگ خاتون کی وفات کے بعد ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی تقریب تھی۔ لاہور واپڈا ٹائون میں ہونے والی اس گیدرنگ میں تقریباً تمام ایسے خاندان تھے جو بلوچستان سے ہجرت کر کے یہاں لاہور میں آباد ہوئے تھے۔ دعا کے بعد تمام خواتین، کوئٹہ میں گزرے ہوئے، خوب صورت دنوں کو یاد کرنے لگیں کہ کیسے اچھے دن تھے، امن و امان تھا مگر آج صورت حال یہ ہے کہ جن گلی محلوں میں انہوں نے اپنی زندگیاں گزاریں وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بلوچستان سے ہجرت کرنے والی پنجابی مائیں تو آج بھی اتنی خوف زدہ ہیں کہ اپنے بیٹوں کو کوئٹہ جانے کی اس شرط پر اجازت دیتی ہیں کہ وہ وہاں پینٹ شرٹس نہیں پہنیں گے بلکہ بلوچی انداز کا لمبا کرتا اور کھلے پائینچوں کی شلوار پہنیں گے تا کہ وہ پنجابی نہیں بلوچ دکھائی دیں۔ اپنے ہی وطن میں کیا یہ تشویش ناک صورت حال نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک عزیز اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کوئٹہ سے لاہور بائی بس آئے۔ دونوں بیٹیاں جو یونیورسٹی کی طالبات تھیں، انہوں نے بلوچی کڑھائی والے فراک پہن رکھے تھے۔ واپسی کے سفر پر بھی انہوں نے دوبارہ اپنے وہی بلوچی فراک اور تنگ موری کی کڑھائی والی شلواریں پہن لیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو ان کے والد بتانے لگے سفر میں ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا لباس پہنیں کہ بلوچ ثقافت اور بلوچ کے انداز و اطوار کے ساتھ مطابقت دکھائی دے۔ یہ بلوچی لباس خاص طور پر سفر کے لیے رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان میں پنجابی پہچان کے ساتھ سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ اپنے ہی وطن ایسا کیوں؟ پنجابی ہونا بلوچستان میں جرم کیوں ہے؟ ان سوالا ت کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان ایک ایسے باصلاحیت اور غیر معمولی خوبیوں سے مالا مال بچے کی کہانی ہے جسے انہوں نے نظرانداز کیا غیروں نے جسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ایک ایسا بچہ جسے محبت دینے اور اعتماد دینے کی بجائے، ٹھکرایا گیا ہو، پروان چڑھنے پر اس کے انداز و اطوار کانٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس کا لہجہ شکایتوں سے زہریلا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کا تعلق پھر اپنوں کے ساتھ جس نوعیت کا ہوتا ہے اسے Toxic Relationکہتے ہیں۔ ایسا تعلق جو اعتماد کی مٹھاس سے عاری اور بداعتمادی کے زہر سے بھرا ہو۔بلوچوں میں احساسِ محرومی کسی ناسور کی طرح پروان چڑھا ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا ہے۔ انہیں وفاق سے شکایتیں ہیں کہ پورا حق نہیں ملا۔ انہیں پنجاب سے گلہ ہے کہ ان کا حصہ پنجاب نے کھا لیا۔ بلوچ اپنے حصے کی نوکریاں، اپنے حصے کی خوشحالی، اپنے حصے کی ترقی کے طلبگار ہیں۔ اپنوں سے بھروسے کا رشتہ ٹوٹ جائے تو غیر اس کا فائدہ اٹھاتے ہی ہیں۔ پھر شعور سے عاری، احساس محرومی سے بھرا ہوا بلوچ نوجوان ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے لگا۔ وہ کیا شعر ہے کہ دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے ملک دشمن عناصر نے بلوچستان کی دھرتی پر رستے ہی نہیں بنا لیے یہاں پڑائو ڈالنے کا خواب بھی دیکھنے لگے۔ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں نے انپے دامن میں بیش قیمت خزانے چھپا رکھے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو اس کا ادراک ہے۔ اگر نہیں پتہ تو ہمیں کہ ہم اس خزانے سے غافل ہیں۔ بلوچستان انتہائی اہم اور حساس جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے۔ ایران، افغانستان، بھارت اور امریکہ کی کوئی دفاعی پالیسی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک بلوچستان پر ان کی پالیسی طے نہیں ہو جاتی۔ کمزور بلوچستان، وفاق سے ناراض بلوچستان، احساس محرومی میں جکڑا ہوا بلوچستان، ان تمام عالمی طاقتوں کے حق میں ہے جو بلوچستان کی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ سوئی سے نکلنے والی گیس اگر پورے ملک کو جائے گی مگر بلوچستان کے اپنے علاقے اس گیس کے استعمال سے محروم رہیں گے تو پھر بلوچوں میں احساس محرومی کا پیدا ہونا اور وفاق کے خلاف غصے کے جذبات ابھرنا عین فطری ہے۔ سی پیک کے بعد جہاں بلوچستان کی اہمیت میں اضافہ وہی بلوچوں کے اندر گلے شکوے مزید بڑھ گئے۔ اعتماد اور بھروسے کی شدید کمی ہے۔ بلوچستان میں پسماندگی ہے غربت اور محرومی ہے جبکہ بلوچستان کی سرزمین خزانوں سے مالا مال ہے۔ یہ صورت حال ایک عجب ستم ظریفی ہے۔ بلوچستان ایک ناراض بچہ ہے۔ اسے منانے اور اس کے ساتھ بھروسے اور اعتماد کا تعلق بنانے کی ضرورت سب سے پہلے۔ باقی باتیں سب بعد کی ہیں۔