پبلک سروس کمیشن کا ادارہ طلباء کے درمیان مقابلے کے امتحانات منعقد کروانے والا ٹرانسپیرنٹ ادارہ سمجھا جاتاہے ۔ میرٹ پر اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر تعیناتیاں کرنا اس ادارے کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔ دوہزاربارہ میں کمیشن کے اسی وقت کے چیئرمین جناب اشرف مگسی نے اپنے ناجائز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیکشن آفیسرکی آسامیوں پر اپنی تین قریبی خواتین رشتہ داروں اور کئی اہم پوسٹوں پر بہت سے نااہل لوگوں کو بھرتی کیا۔غالباً یہ خبر پہلے ایک ٹی وی چینل پر بریک ہوئی اور پھرحرکت میں آکر نیب نے کوئٹہ میں کمیشن کے دفترپر چھاپہ مار کرامتحانات سے متعلق تمام دستاویزات اپنی تحویل میںلے لیں ۔بعد میں مگسی صاحب بھی گرفتار کرلیے گئے اور ان سے پہلے ایسی ہی بدعنوانی کے جرم میں اس ادارے کے نیازمحمد اور عبدالواحدنامی آفیسرز بھی گرفتار ہوکر جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجے گئے تھے۔ پچھلے سال2018ء کوبھی ستمبرکے آخری ہفتے میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسر کے چھیاسٹھ آسامیوں پر مقابلے کا امتحان کنڈکٹ کروایا۔پورے صوبے سے لگ بھگ نوہزار سے زیادہ امیدوار مقابلے کے اس امتحان میں حاضر ہوئے ۔مقابلے کے اس امتحان میںبے شمار ایسے امیدوار وں نے بھی حاضری لگوائی جواس سے پہلے پی سی ایس اوروفاقی سطح کے سی ایس ایس کے تحریری امتحانات میں کامیاب اور انٹرویو میں ناکام رہے تھے ۔پورا مہینہ چلنے والے اس امتحان کے نتائج پانچ ماہ بعدرواں سال دس اپریل کو پبلک سروس کمیشن نے اعلان کردیئے۔نتائج کیاتھے ،ہزاروں امیدواروں کیلئے ایک مایوس کن اور اعصاب اپاہج کردینے والی خبر تھی ۔ ساڑھے نوہزار امیدواروں میں سے صرف اٹہتر امیدوار کامیاب قرار دیئے گئے تھے جبکہ نوہزار چارسو سے زیادہ امیدواروں کوناکام قرار دیا گیا تھایوں کامیابی کی کل شرح 0.08فیصد رہی ۔ان نتائج کی رو سے وہ امیدوار بھی بازی ہار گئے ہیں جنہوں نے سی ایس ایس اور اس سے پہلے پی سی ایس کے تحریری امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی ۔سننے کویہ بھی ملاہے کہ مذکورہ امتحان کے تحریری سیکشن میں دو ایسے امیدوار بھی کامیاب قرار پائے ہیں جو پبلک سروس بلوچستان کے دفتر میں کلرک لیول کے ملازم ہیں۔ جہاں تک مذکورہ امتحان کا تعلق ہے تو اس بات پر پورے صوبے کا اجماع ہے کہ اس امتحان کے تمام لازمی اور اختیاری مضامین کے سوالیہ پرچہ جات کی تیاری میں نہایت افراط سے کام لیاگیاتھا۔ مثال کے طور پر لازمی پیپرز میں جنرل نالج اور حالات حاضرہ کے پرچے میں دیومالائی اور آئوٹ آف سلیبس سوالات کی بھرمار۔ اسی طرح پاکستان افیئر اور اسلامک آفیئرز کا مشترکہ پیپرمکمل طور پر معروضی سوالات پرمشتمل تھاجس کاطلباء نے بائیکاٹ کیا تھا، جسے بعد میں ادارے نے کینسل کرکے اسی دن شام کو اس کا متبادل پرچہ دیاتھا۔اسی طرح لازمی مضامین میںانگریزی مضمون نگاری، گرائمر اور تلخیص پر مشتمل پیپر کوتیار کرنے والے عالی دماغ ممتحن نے پچیس نمبروں کے پریسی کے پہلے پیراگراف میںلفظ lookکی بجائے book لکھاتھا جبکہ اسی پیپرہی میں جملے کی تصحیح 0neاورone's نے بھی طلباء کیلئے پریشانی پیداکی تھی ۔بلاشبہ ،انگریزی کے پرچے میں یہ فاش غلطیاں تھیں جس کی وجہ سے ان سوالات کا پورا خاکہ تبدیل ہوگیاتھااورطلباء کافی کنفیوزڈ ہوئے تھے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ادارہے کی طرف سے مذکورہ سوال کو چیکنگ کے دوران شمارکرنے سے گریز کیاجاتایا پھر پورے پیپر کو ری شیڈول کیاجاتا،لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتاہے کہ طلباء کودوبارہ اسی پیپرحل کرنے کا موقع تونہیںدیا گیا بلکہ اغلب گمان یہی ہے کہ اُس متنازعہ سوال کو چیکنگ کے وقت شماربھی کیا ہوگا۔اسی حساب سے جرنلزم ، سائیکالوجی ،کامرس،جغرافیہ اور جرنلزم کے اختیاری مضامین میں بھی نارمل سوالات کی بجائے پیٹرن سے ہٹ کر لایعنی سوالات کے جوابات مانگے گئے تھے۔یاد رہے کہ ڈیڑھ سو نمبروں کے حامل ان اختیاری مضامین کے پیپرز میں طلباء ماضی میں سونمبروں سے زیادہ نمبرلیتے تھے لیکن اس امتحان میں مذکورہ مضامین کے پیپرزکو اتنے ناقابل حل تیار کیے گئے تھے کہ اہل طالبعلموں نے بھی مشکل سے پاس نمبر حاصل کیے ہیں۔اسی طرح دوامتحانی ہال میں بلوچی زبان کے سوالیہ پیپرمیں سوال نمبر چھ غائب تھا جس سے طلباء کو خبردار نہیں کیاتھا۔ امتحان کنڈکٹ کرنے کے بعد عموماً اصول یہ ہوتاہے کہ پیپرزپہلے مخصوص کوڈنگ کی جاتی ہے اور بعد میں مارکنگ کیلئے چیکرز کے حوالے کیے جاتے ہیں لیکن یہاں ادارے پر یہ الزام بھی لگایا گیاہے کہ چیکنگ سے پہلے پرچوں کی کوڈنگ نہیں کی گئی تھی ۔ یادرہے کہ پی سی ایس کے تحت ہونے والے امتحان میں کل سات پیپرز دیئے جاتے ہیں جن میں چار لازمی جبکہ تین پیپرز میں امیدوار کواپنی مرضی کا مضمون رکھنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ۔ لطف کی ایک اور بات یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ امتحان میں شرکت کرنے والے کئی ایسے لیکچررز اور گولڈمیڈلسٹ حضرات کے نام بھی سامنے آئے ہیںجو کالجز اور یونیورسٹیز میں اپنے پڑھانے والے مضمون میں ناکام قراردیئے گئے ہیں۔لازمی بات ہے کہ پبلک سروس کمیشن کے ذمہ دار اور حساس فورم پر اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسرجیسے اہم آسامیوں کیلئے ہونے والے مقابلے کے امتحان میں اس نوعیت کی بے قاعدگیاں دیکھ طلباء احتجاج بھی کرینگے اور اپنی حق تلفی کیلئے آواز بھی بلند کریں گے۔ سو ،اس مسئلے کا آسان سا حل یہی ہے کہ ادارہ ایک آزاد کمیشن قائم کرکے اس کے تحت امتحان میں لیے گئے پیپرز کی ری چیکنگ کریں یاپھر بے قاعدگیوں کی نذر ہونے والے اس امتحان کو ری کنڈکٹ کریں تاکہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے اور احتجاج کرنے کی نوبت نہ آئے۔